مولانا فضل الرحمن افغانستان کے دورے پر ہیں ،ان کا یہ دورہ یقینا دونوں ملکوں کے عوام کی ایک امید ہے ۔ جس دن سے حکومت پاکستان نے غیر قانونی طو رپر مقیم غیرملکیوں کو یہاں سے نکالنے کا اعلان کیا ہے ،اس دن سے دونوں ملکوںکے عوام کے لیے شدید مشکلات پید اہوئی ہیں ۔ بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط کے اطلاق کے خلاف کئی دن تک احتجاجی دھرنا جاری رہا ،جس کی مزدور ،تاجر اور جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت نے حمایت کی تھی۔پاکستان نے 76 برسوں میں پہلی بار یکم نومبر سے چمن پاک افغان سرحد پر آمدروفت کو مکمل دستاویزی شکل دینے اور پاسپورٹ اور ویزا کو لازمی قرار دیا تھا ۔ اس سے پہلے چمن کے رہائشیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جب کہ افغان سرحدی شہر بولدک اور صوبہ قندھار کے رہائشیوں کو افغان شناختی دستاویز تذکرہ پر آنے جانے کی اجازت تھی۔دھرنے پر بیٹھے لوگوں کا موقف تھا کہ برطانوی ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ 1920ء میں جو معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق سرحد کی دونوں جانب پانچ پانچ میل رہنے والے لوگوں سے کوئی سفری دستاویزات طلب نہیں کی جائیں گی، ان کو سرحد پار آمد و رفت کی اجازت ہوگی۔ان کے مطابق برطانیہ سے آزادی کے بعد اس کی جگہ لینے والی ریاستِ پاکستان بھی اس معاہدے پر عمل درآمد کی پابند ہے۔اب سرحد پر لگنے والی باڑ نے ان قبائل کو تقسیم کر دیا ہے تاہم ان کے درمیان رشتہ داریاں برقرار ہیں۔ ایک بھائی یہاں رہتا ہے تو دوسرابھائی وہاں۔ اصل میں یہ مسئلہ پید اکیسے ہوا؟امیر عبدالرحمٰن 1880 ء میں افغانستان کے فرماں روا بنے تو انہیں اس عہد کی بڑی سلطنت روس کی جانب سے خطرات لاحق تھے۔اس سے قبل 1878 ء سے 1880ء کے دوران افغانستان اور برطانیہ کے درمیان ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں امیر عبدالرحمٰن کے چچا شیر علی نے روس کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔اس کوشش میں ناکامی کے بعد شیر علی نے اقتدار اپنے بیٹے یعقوب کے حوالے کر دیا تھا۔ یعقوب نے برطانیہ کو پورے ملک پر قابض ہونے سے روکنے کے لیے 1879 میں معاہدہ گندمک پر دستخط کیے تھے۔اس معاہدے میں افغانستان کے خارجہ امور پر برطانیہ کا مکمل اختیار تسلیم کرلیا گیا تھا۔افغانستان میں اس معاہدے کی شدید مخالفت ہوئی جس کے نتیجے میں محمد یعقوب کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور امیر عبدالرحمٰن افغانستان کے حکمران بن گئے۔ ملک کے داخلی حالات پر قابو پانے کے لیے درکار وسائل اور ہتھیاروں کے لیے امیر عبدالرحمٰن کا انحصار برطانیہ پر تھا۔ برطانیہ نے سرحدوں کے تعین کے بدلے امیر عبدالرحمٰن کو سالانہ امدادی رقم میں اضافے کی پیش کش کی۔ عبدالرحمٰن کے لیے اس وقت کے حالات میں یہ پیش کش ٹھکرانا ممکن نہیں تھا۔برطانوی دور میں ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ ڈیورنڈ مورٹیمر اور امیر عبدالرحمٰن کے درمیان 12 نومبر 1893ء کو کابل میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت ایک ایسی لکیر کھینچ دی گئی، جس نے دونوں جانب بسنے والے کئی پشتون آبادیوں کو تقسیم کر دیا۔مگر امیر عبدالرحمٰن کے انتقال کے بعد آنے والے افغان حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن کو برطانیہ کے ساتھ ان کا ذاتی معاہدہ قرار دے کر اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔جب برطانیہ نے ہندوستان کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا اور یہاں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو الگ الگ ریاستیں قائم ہونا طے پایا تو ڈیورنڈ لائن کے تنازع نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا۔ ڈیورنڈ لائن کا درینہ تنازع ہے ،جس پر افغانستان میں قائم ہونے والی ہر منتخب اور غیر منتخب حکومت کا موقف یکساں رہا ہے۔یہاں تک کہ افغان طالبان کے پہلے امیر ملا محمد عمر ؒ بھی اسے متنازع سمجھتے تھے ۔پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر 1970ء کی دہائی سے ہی افغانیوں کی مدد کر رہے تھے ۔انہوں نے 1970 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو منظم کرنے سے لے کر 1990 کی دہائی میں طالبان کو بطورِ گروہ منظم کرنے تک بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ مقامی و عالمی میڈیا میں انہیں ’’فادر آف طالبان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ایک مرتبہ نصیر اللہ بابر نے طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر ؒسے ان کے حجرے یا مہمان خانے میں کھانے کے دوران یہ کہا کہ آپ ڈیورنڈ لائن تسلیم کرلیں جس پر ملا عمرؒ طیش میں آگئے اور پشتون روایات کے برخلاف انہیں کھانا چھوڑ کے حجرے سے نکل جانے کا کہا۔ آپ کسی بھی افغانی سے بات کر لیں۔وہ کیمونسٹ ہو یا سرمایہ دار، طالبان کا حامی ہویا قبائلی جنگجو، شہری ہو یا دیہاتی، ملا ہو ملحد۔ ان سب کا آپس میں ننانونے باتوں پر ایک دوسرے سے اختلاف ہوگا مگر اس پر سب کا اتفاق ہو گا کہ ڈیورنڈ لائن ایک ناجائز لکیر ہے ہم اسے نہیں مانتے۔اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن اور ان کا وفد کس طرح پاکستان کے اصولی موقف کو منوا پائے گا ؟ دوسرا بڑا مسئلہ افغان شہریوں کی پاکستان بدری ہے ۔حکومت پاکستان نے افغانیوں کی واپسی کے لیے اعلان کیا۔ تیسرا بڑا مسئلہ پاکستان کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر کنٹرول سخت کرنے کے اقدامات ہیں،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے ہمراہ وفد میں شریک سبھی علما کرام کا طالبان احترام کرتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن بھی ایک منجھے ہوئے سیاستددان ہیں ،جو دلیل سے اپنے مد مقابل کو پسپا کرنے کا فن خوب جانتے ہیں ۔مگر وقت بتائے گا کہ ان کا یہ دورہ کس قدر کامیاب ثابت ہوا ہے ؟