پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ہماری اور دنیا کی تشویش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں ہے جب پاکستان کے مستقبل کے منظر نامے پر وقفے وقفے سے رپورٹیں شائع ہوتی تھیں۔ ظاہر ہے زیادہ تر رپورٹیں مغرب کے تحقیقی اداروں جامعات اور غورو فکر کرنے والے اداروں کی طرف سے شائع ہوتی تھیں۔ نائن الیون کے بعد اس قسم کی رپورٹوں کی اشاعت میں تیزی آئی تھی ان میں سب سے زیادہ تشویش پاکستان میں دہشت گردی اور پروان چڑھتی انتہا پسندی سے ظاہر کی جاتی تھی۔ کچھ رپورٹیں معیشت اور سماجی شعبے کی ابتر ہوئی صورتحال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتی نظر آتی تھیں۔ چندایک رپورٹیں پاکستان کے لیے تجاویز اور مستقبل کے ممکنہ لائحہ عمل پر بھی روشنی ڈالتی تھیں۔ بیرونی اداروں کی بات تو الگ پاکستان کی جامعات‘ ذرائع ابلاغ پر بھی کبھی کبھار مستقبل کے منظر نامے سے متعلق تشویش بھری آرا نظر آ جاتی تھیں۔ اب صورت حال مختلف ہے۔ کچھ سنکی مزاج تبصرہ نگار اور خوش ساختہ دانشور اب بھی انٹ شنٹ کہتے رہتے ہیں۔ ایک حالات کے مارے آدمی نے پامسٹ کو ہاتھ دکھایا تو اس نے کہا کہ یہ حالات چند ماہ تک رہیں گے بدنصیب نے خوشی سے اپنے ہاتھ کو میلے کرتے سے صاف کرتے ہوئے پوچھا کیا اس کے بعد میرے حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ پامسٹ نے کہا، نہیں تم اس کے عادی ہو جائو گے‘‘ان سنکیوں کا کہنا ہے کہ دنیا ہماری اور ہم حالات کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہمارے بزرگ آئی اے رحمن اکثر ذکر کرتے تھے کہ فیض احمد فیض سے کسی نے پاکستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ یہ ملک کیسے چلے گا؟ فیض صاحب نے سگریٹ کا کش کھینچتے ہوئے جواب دیا تھا بھئی ایسے ہی چلے گا‘‘ آئی اے رحمن بھی حالات کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ انہیں یہ واقعہ شاذ ہی یاد آتا ہے وہ بھی جب انہیں لگے کہ ملک واقعی ایک نازک دوراہے سے گزر رہا ہے۔ مثلاً اسلام آباد کی احتساب عدالت کے ایون فیلڈ ریفرنس پر فیصلے کے بعد شاید انہوں نے یہ واقعہ کسی کے سامنے دہرایا ہو۔ حالانکہ دور کی کوڑی لانے والے دانشور تو برملا کہہ رہے ہیں کہ اب نیا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ شاید ہم اپنے حالات کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہماری قوم کے مفکروں اور رائے سازوں کی زبان (ڈکشن) بھی ایسی ہو گئی ہے جس میں کھیل تماشا فلم ڈرامہ وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ اور ان سے متعلق فحش لطیفوں طنزیہ کاٹ دار جملوں کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ اس صورت حال پر ہمارے عزیز دوست دانشور اور سینئر صحافی سلیم صافی نے اپنے ایک دوست کا طنزیہ اپنے کالم میں شائع کیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان بننے سے پہلے کے ایک سردار کے فلم بینی پر مبنی تجربے کے ذریعے ایک حکایت تشکیل دی ہے کہ وہ ایک فلم مسلسل اس لیے دیکھتا ہے کہ شاید اگلے دن سفید گھوڑا کالے گھوڑے کو ہرا دے۔ اب سردار کو کون سمجھائے کہ فلم تو فلم ہے اور وہ آج بھی سرحد پار سے مسلسل یہ فلم اس امید پر دیکھتا رہتا ہے کہ شاید اس مرتبہ سفید گھوڑا جیت جائے۔ اب انگریزی محاورے میں کالا گھوڑا بالکل مختلف ہے یعنی چھپا رستم لیکن پاکستان کے سیاسی اور انتخابی منظر نامے پر سفید گھوڑا ہی کالا گھوڑا ہوتا ہے اور کالا گھوٹا سفید۔ ہمیں اتنی سمجھ ضرور ہے کہ ہمارے دوست سلیم صافی اپنے دوست کی حکایت کے ذریعے ہمیں بتانا چا ہ رہے تھے کہ گزشتہ ستر بہتر سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ بدلتے ہیں تو صرف نام کبھی نواز شریف ہوتے ہیں اور کبھی عمران خان‘ نواز شریف بھی کبھی عمران خان تھا اور عمران خان بھی کبھی نواز شریف ہو گا۔ اب حالات ایسے بھی نہیں ہیں کہ ہم پاکستانی سیاست کو ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ جیسا ڈرامہ سمجھ لیں۔ کالے گھوڑے کے جیتنے سے پہلے ایک سیکوئنس میں بھورا گھوڑا بھی آتا ہے اور گمان ہوتا ہے کہ کہیں یہی کالا گھوڑا نہ ثابت ہو۔ سلیم صافی نے شاید طنزیہ کالم لکھا ہے کہ پاکستان بہتر کا ہو گیا ہے اور پنجابی محاورے میں بہتر کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن ان کی حکایت میں جہاں گھوڑوں کا ذکر ہے وہاں پنجاب میں اسی سے ملتی جلتی فلمی حکایت میں ندی‘ گوری مٹیار اور ریل گاڑی کا ذکر ہے اور سردار صاحب کا خیال ہے کہ کسی دن تو ریل گاڑی لیٹ ہو گی۔ پاکستان کی یہ واحد ریل گاڑی ہے جو آج تک لیٹ نہیں ہوئی یقین نہ آئے تو ڈبے سے فلم نکال کر دیکھ لیں۔ ویسے پاکستان میں ایک اورفلم ہے جس سے مجموعی اور خاص طور پر سیاسی صورتحال کی تفہیم زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے وہ فلم ہے، مولا جٹ۔ یہ فلم سو سے زائد مرتبہ بنی اور ہر مرتبہ اسے دیکھنے کا نیا مزا آیا بلکہ ابھی تک آتا ہے ۔ چن وریام ہویا وحشی گجر، شیر پنجاب ہو یا شعلے ‘ کالکا‘ میلہ ‘ خودار‘ شیر خان یا بہرام ڈاکو، مولا جٹ نے ہمیشہ الگ مزا دیا۔2018ء کے الیکشن 2013ء کے الیکشن نہیں ہیں اس کے کردار پروڈکشن ٹیکنالوجی ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ مولا جٹ اور نوری نت کی جنگ ابدی ہے اور لگتا ہے کہ ایک سراپا خیر اور دوسرا برائی ہے، لیکن کبھی کبھی نوری نت کے اندر ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے اور وہ مولا جٹ کے ساتھ مل جاتا ہے اور ایک تیسرا دشمن جو دراصل ان دونوں کو لڑا کر فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ فلم کے آخر میں یہ دونوں اس کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ تیسری قوت ان کو گمراہ رکھتی ہے فلم بینوں کو یہ صاف نظر آ رہا ہوتا ہے اور کئی جذباتی فلم بین تو فلم کے دوران کھڑے ہو جاتے ہیں اور انہیں سمجھانے کے لیے گالیاں تک دیتے ہیں۔ لیکن وہ فلم ہی کیا جس کا کوئی ڈائریکٹر نہ ہو اور وہ فلم بینوں کی خواہش پر آگے بڑھے۔ یہ ڈائریکٹر کا کمال ہے کہ وہ فلم میں مولا جٹ اور نوری نت کو لڑوا دے یا اکٹھا کر دے۔ فلم وہی رہتی ہے اور اس کا مزہ بھی وہی رہتا ہے ہماری سیاست میں بھی ایسے میثاق ہوتے رہے ہیں لیکن یہ زیادہ نہیں چل پاتے۔ فلم بین اس ایک ہی فلم کو دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں اگر کوئی مختلف فلم چلانے کی کوشش کرے تو ہوٹنگ کرتے ہیں۔ ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں جب ملے گا ظلم دا بدلہ‘ ریلیز ہوئی تھی تو شروع کا کچھ عرصہ یہ زیادہ نہیں چل سکی تھی لیکن کچھ ہفتوں کے بعد اس فلم نے کھڑکی توڑ رش پکڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہیرو کو آدھی سے زیادہ فلم میں اسے مظلوم دکھایا گیا تھا اور فلم بینوں کی خواہش تھی کہ ہیرو کوجلد از جلد ظلم کا بدلہ لینے کے لیے کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ جب خواتین نے فلم دیکھی تو پھر اس فلم نے جان پکڑی تھی فلم بین ہیرو کو روتے ہوئے اور مظلوم کیفیت میں زیادہ دیر نہیں دیکھنا چاہتے۔ فلم میں زیادہ کھڑاک اس کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ بابا اشفاق احمد سے کسی نے پوچھا تھا کہ ہم ایک ہی فلم ’’مولا جٹ‘‘کیوں دیکھے جا رہے ہیں ؟ انہوں نے اپنے روایتی دھیمے اور مدبرانہ لہجے میں جواب دیا تھا کہ جس دن مولے کو مولا مارے گا اس دن اس سے ہماری جان چھوٹے گی۔ غالباً ان کا اشارہ مولا جٹ کے اس مشہور زمانہ ڈائیلاگ کی طرف تھا جس میں وہ نوری نت کو للکارتے ہوئے کہتا ہے‘ مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں او مردا‘‘ (اگر مولا جٹ کو مولا جٹ نہ مارے تو کسی کی کیا مجال کہ اس کو کوئی مار سکے) اشفاق احمد نے یہ بات 1995ء میں کہی تھی1996ء میں مولا جٹ (سلطان راہی) راہی عدم ہو گیا لیکن مولا ہے کہ ابھی تک زندہ ہے اور اس کے اندر وہ مولا بھی پیدا نہیں ہو رہا‘ جو اسے مار سکے۔ مولا جٹ کی ہائوس فل نمائش آج بھی پورے سرکٹ میں اپنی آب و تاب سے جاری ہے۔