مولانا فضل الرحمان کے مارچ کو ختم نبوت سے جوڑیں یا عمران مخالف جذبات کا اظہار کہیں یہ سچ ہے کہ ریاست کو اپنی تعمیر کردہ ایک اور دیوار کو دھکا دینے کا وقت آ پہنچا۔ مولانا کا مزاج اقتدار پسندانہ ہے۔ ان کے پاس اپنی بات کہنے کے سو طریقے ہیں۔ سب سے خطرناک طریقہ مذہبی کارڈ کا استعمال ہے جو شاید پہلی بار اداروں کی مرضی کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ چند ماہ قبل ایک کالم میں لکھا تھا کہ مولانا کا خرچ اٹھانے پر جس دن مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی نے اتفاق کر لیا مولانا دھرنے‘ مارچ یا تحریک کا اعلان کر دیں گے۔ شنید ہے کہ جیلوں میں بند سیاستدان مولانا کو اخراجات برداشت کرنے کا پیغام دے چکے ہیں۔ بلا شبہ قائد اعظم ایک ایسی ریاست کا تصور ذہن میں رکھتے تھے جہاں شہری اپنی آئینی شناخت میں مسلم دکھائی دیں۔ جہاں اقلیتوں کے حقوق ہوں اور جہاں کثیر الثقافتی آبادی ایک قوم کے طور پر ابھرے ۔ دارالعلوم دیو بند اور اس سے منسلک تعلیم گاہوں نے عجب کام کیا۔ وہاں سے فارغ التحصیل افراد دینی لحاظ سے فاضل اور جید علماء کہلائے مگر ان کی سیاسی فہم میں ایک کجی پیدا ہو گئی۔ انہوں نے مطالبہ پاکستان کی مخالفت کر دی۔ نظریہ پاکستان کی بنیاد مسلم اور غیر مسلم ہندوستان تھا۔ صاحبان دیو بند نے اس کو بھی رد کر دیا۔ حیرت انگیز طورو پر دیو بند کی سیاسی حمایت مسلمانوں کی مسلم لیگ کی بجائے ہندوئوں کی کانگرس کے ساتھ رہی۔ اب بھارت میں دارالعلوم دیو بند کے مہتمم حضرات ایک دوسرے سے بڑھ کر مودی کی حمایت کر رہے ہیں۔ دونوں حضرات نے جو رشتے میں چچا بھتیجا ہیں،مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت کو بدلنے کی پر زور حمایت کی ہے۔ بھارت کے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دونوں بھائیوں میں ایک دوڑ لگی ہے کہ حکومت کی حمایت حاصل کی جائے۔ حکومت کی اس حمایت کا اس کے سوا کیا فائدہ ہو سکتا ہے کہ حکومت ان کو کسی کمیٹی کا سربراہ بنا دے۔ کچھ زمین لیز پر عطا کر دے۔ بیرونی دورے پر کسی وفد کا حصہ بنا دے۔ دیو بند کی دینی خدمات سے بحث نہیں۔ بات اس دارالعلوم اور اس سے فکری و مسلکی لحاظ سے وابستہ ہزاروں اداروں اور شخصیات کے سیاسی کردار کی ہو رہی ہے۔ آزادی کے وقت شمالی مغربی سرحدی صوبے میں کانگرسی حکومت تھی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے کانگرس کی حمایت ترک کر کے قائد اعظم کا سپاہی بننے کا اعلان کیا۔ شبیر احمد عثمانی اوراشرف علی تھانوی دیگر علماء سے الگ دکھائی دیتے ہیں۔ اے این پی اور جمعیت علمائے ہند کی پاکستانی شاخ کے لئے قائد اعظم ناقابل قبول تھے۔ ایک کا خیال تھا کہ وہ ہندوستان کی سیکولر حیثیت کا دشمن بنیاد پرست مسلمان ہے جبکہ دوسرا گروہ سرعام حضرت قائد اعظم پر کفر کے فتوے لگا رہا تھا۔ یہ لوگ کے پی کے میں پسماندہ علاقوں میں جاتے اور اپنے سیاسی نظریات کی تبلیغ کرتے۔ اے این پی کی سیاست میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان کے رہنمائوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں دے کر پاکستان کے ساتھ وفاداری ثابت کر دی ہے۔ کے پی کے میں دیوبندکی سیاسی باقیات تقسیم ہوتی گئیں۔ مولانا سمیع الحق نے ریاست پاکستان کے ہر بیانئے کو قبول کیا۔ ان کے شاگرد آج بھی کسی داخلی انتشار کا حصہ بننے کو آمادہ نہیں۔ اعتزاز احسن نے درست کہا:مولانا فضل الرحمن کو عمران خان سے ذاتی چڑ ہے۔ ایسی ہی ضد شاید ان کے بزرگوں کو ہمارے بزرگ قائد اعظم محمد علی جناح سے تھی۔ تاریخ نے مولانا کے بزرگوں کے سیاسی کردار کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ مولانا کا مسئلہ یہ ہے کہ کم فہم لوگوں نے انہیں اپنے کالموں اور تجزیوں میں شاطر ‘ عقل کل اور دور اندیش ثابت کرنا شروع کر دیا۔ ایک زرداری سب پہ بھاری والا نعرہ بھی ایسے ہی مبصرین نے عام کیا جو سیاسی موضوعات کا تجزیہ کرنے سے محروم ہیں‘ تجزیے کے نام پر ادھر ادھر سے حاصل معلومات کو کالم میں گھسیڑ دیتے ہیں۔ خیر ‘مولانا فضل الرحمن اور شیری رحمان ایک سی طبع رکھتے ہیں۔ دونوں assertive ہیں۔ موقع تلاش کرنے اور پھر اپنی جگہ بنانے میں ماہر۔ مولانا کے اس ہنر کی ضرور داد دی جا سکتی ہے۔ عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین مثالی تعلقات کار ہیں۔ کشمیر کے معاملے پر ریاست پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے‘ عمران خان پاکستان کے معاشی اور بین الاقوامی مسائل کی ایک بڑی وجہ تنازع کشمیر کو سمجھ رہے ہیں‘ ایسا سمجھنا غلط بھی نہیں۔ ان کی توجہ بین الاقوامی برادری کو باور کرانے پر مرکوز ہے کہ مودی کے نظریات انسان دشمن ہیں۔ دارالعلوم دیو بند بھارت کے زمام کار حضرات کا موقف بھی ظاہر ہے مودی کا موقف ہے اس لئے عمران جب کشمیر کی بات کرتے ہیں تو ان کا رد بھی ہو جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن افغان جہادمیں اہم نہیں تھے‘ انہوں نے اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں سے کہہ کر اپنے لئے ایک کردار حاصل کیا۔ پھر انہوں نے اس کردار کو پھیلایا۔ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کا اتحادی بنے رہ کر انہوںنے کبھی احتجاجی تحریک نہیں چلائی۔ ہاں کبھی کبھار سندھ میں بڑے بڑے جلسے کر کے اپنی طاقت شو کرتے رہے ہیں۔ پہلے پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف سیکولر سمجھے جاتے تھے‘ اب خیر سے ن لیگ بھی اسی صف میں کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ عمران خان معاشیات اور کشمیر پر یکسو ہیں۔ پھر مولانا ختم نبوت کے نام پر سیاسی انتشار پھیلا کر کس کا ایجنڈہ پورا کرنا چاہتے تھے۔ مولانا حکومت سے تنگ تاجروں سے بھی دھرنے کی مالی ضروریات کا ذکر کر رہے ہیں۔ سنا ہے 37 کروڑ کا چندہ جمع ہو چکا ۔ کیا ریاست کو اپنی ہی تعمیر کردہ شکستہ دیوار کو دھکا دیدینا چاہیے۔