جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہم مزید صبر کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ اتوار کی شام تک مہلت دیتے ہیں وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں اس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل تشکیل دیں گے۔ دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ انتشار ملک کے مفاد میں نہیں۔ کسی کو بھی ملکی استحکام خراب نہیں کرنے دیں گے۔ ہماری سپورٹ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہے۔ کراچی سے 27اکتوبر کی صبح شروع ہونے والا آزادی مارچ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اسلام آباد پشاور موڑ پر خیمہ زن ہو چکا ہے۔ پانچ دن ملک بھر کا سفر طے کرنے والے آزادی مارچ میں کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے تحمل‘ بردباری اور صبر کا بے مثال مظاہرہ کیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس 2014ء میں پی ٹی آئی کے آزادی مارچ پر مسلم لیگی کارکنان نے گوجرانوالہ شہر میں پتھرائو اور عمران خان کے کنٹینر پر بھی چار سو کے قریبی لیگی کارکنان نے حملہ کیا تھا۔ موجودہ حکومت کی بہتر حکمت عملی کے پیش نظر پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے مارچ کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کی گئی نہ کوئی بدمزگی دیکھنے میں آئی۔ اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ آزادی مارچ کی مقامی انتظامیہ نے معاہدہ کر رکھا ہے اگر آزادی مارچ اپنے وعدے کے مطابق مختص کردہ جگہ پر ہی ٹھہرا رہا تو حکومت کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا لیکن اگر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈ زون کی جانب بڑھا تو قانون حرکت میں آئے گا۔ مارچ کی تعداد دیکھتے ہوئے مولانا کے تیور بدل چکے ہیں اور اب وہ اپنے موقف میں لچک دکھانے پر تیار نظر نہیں آ رہے۔ ابھی تک جے یو آئی کے کارکنان نے ایک گملا بھی نہیں توڑا اسی بنا پرسبھی تجزیہ نگار اسے ایک مثالی مارچ قرار دے رہے ہیں لیکن اگر انہوں نے بلوائیوں کی صورت اختیار کر کے قومی املاک کو نقصان پہنچایا تو پھر پاک فوج کے ترجمان کہہ چکے ہیں کہ وہ منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کل تک مولانا فضل الرحمن عمران خاںکے مارچ پر تنقید کرتے تھے آج وہ کس منہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’عوام کا سمندر قدرت رکھتا ہے کہ وزیر اعظم کو گرفتار کر لے‘‘۔ ان نعروں کے بعد طالبان اور ،،مولانا میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ طالبان بھی بندوق اور طاقت کے زور پر جمہوری حکومت ختم کر کے اپنے مقاصد کی آبیاری چاہتے ہیں وہی لائحہ عمل مولانا نے اپنا لیا ہے،اس کے بعد طالبان ، داعش اوران جتھوں میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا پورا حق ہے، ماضی میں حکمران جماعت بھی یہی راستہ اختیار کر چکی ہے لیکن پی ٹی آئی والے چند مطالبات لے کر اسلام آباد آئے تھے انہوں نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا جسے تسلیم نہ کرنے پر 126دن کا دھرنا دیا گیا تھا جبکہ علامہ طاہر القادری بھی سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر کٹوانے کا مطالبہ لے کر اسلام آباد آئے تھے ، مولانا فضل الرحمن کے پاس تو ایسا کوئی ایشو ہی نہیں، وہ صرف اپنی شکست کا بدلہ جمہوریت کو ڈی ریل کر کے لینا چاہ رہے ہیں اگر مولانا فضل الرحمن اس بھاری جتھے کے ساتھ اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے تو لامحالہ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی پیدا ہو گی جس کے بعد سسٹم ڈی ریل ہونے کے خدشات بھی پیدا ہو سکتے ہیں، اس لئے اب فریقین کے صبر ،تحمل اور حکمت عملی کا امتحان ہے اگر سیاسی بصیرت سے جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر آ ہی گئی ہے تو اسے ٹریک سے اترنے نہ دینا ہی سیاستدانوں کی دانشمندی ہے۔ مولانا کے سخت لہجے سے مسلم لیگ ن کے قائد میاں شہباز شریف بھی شاکی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ رہی بات آفتاب شیرپائو، محمود خان اچکزئی اور مولانا اویس نورانی کی تو وہ صرف جمعہ جنج نال ہیں ان کے ساتھ کارکنان ہیں نہ ہی اکیلے ان کی کوئی سیاسی ساکھ ہے۔ ان لوگوں کے لئے آمریت زیادہ سود مندہے، اس لئے سسٹم کا ڈی ریل ہونا بڑی جمہوری پارٹیوں کے لئے نقصان ہو گا۔ اگر یہ سسٹم موجود رہے گا تو پھر اپنے منشور اور ایجنڈے کے تحت انتخابی عمل کے ذریعے مولانا کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع مل سکتا ہے لیکن اگر اس چھینا جھپٹی سے جمہوریت کی گاڑی ٹریک سے اتر گئی تو پھر ہمارے سیاسی قائدین کو نہ جانے کتنا عرصہ اور کتنی مشقت کرنا پڑے گی۔ حکومت کو اپنے خلاف ہونے والے آزادی مارچ سے سبق حاصل کر کے اپنے معاملات درست کرنے چاہیں عوام نے جس مقصد کے لئے انہیں اقتدار سونپا ہے اس کے مطابق لوگوں کو روٹی روزگار فراہم کر کے ان کے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ پسے طبقے کی اشک شوئی کرنی چاہیے۔ مہنگائی کنٹرول کر کے عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر کے اشیاء خرو نوش کو عوام کی پہنچ رکھنا چاہیے۔ تاکہ بلوائیوں اور جنونیوں کے جتھوں سے بچائو کے لیے عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں افغان طالبان کے جھنڈے لہرانے سے معاملہ مشکوک ہو گیا ہے جس پر حکومت کے علاوہ اتحادی سنجیدگی سے غور کریں ‘اس لئے 22کروڑ عوام اور جمہوریت پسند حلقے آزادی مارچ سے فاصلہ رکھیں اور جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہو کر ایسی تمام قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں جو ہمارے ملک میں سیاسی استحکام کے خلاف صف آرا ہیں۔