سیاست پہلوانوں کا اکھاڑا نہیں جہاں مقابل کو زور اور دھونس سے گرایا جاتا ہے۔ سیاست تو شطرنج کی وہ بساط ہے جہاں شاطر امکانات کو بھانپنے اور ان کو ممکن کر دکھانے کی اپنی مہارت آزماتا ہے۔ آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کروا کر امکان کو ممکن کر دکھایا تو پی ٹی آئی نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چنائو میں اپوزیشن کا دائو پی ڈی ایم پر ہی پلٹ دیا۔ انہونی کا ہو جانا ہی تو سیاست ہے ۔ یہ بات مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن قبول کرنے کے لئے اس لئے تیار نہیں کیونکہ انہوں نے تو اقتدار کی بازی ہمیشہ جیتوں تو تجھے پائوں ہاروں تو پیا میں تیری کی شرط پر ہی لگائی ہے۔ اسی لئے تو مولانا فضل الرحمن جیل جانے سے ڈرنے کا طعنہ اس زرداری کو دے رہے ہیں جس نے اپنی جوانی کے 14سال جیل میں گزارے اور میاں نواز شریف کے گرویدہ ہیں جو جیل کے بجائے لندن میں بیٹھ کر سیاست کرنا پسند فرماتے ہیں۔ آصف زرداری کو اب اس صورتحال میں اس شعر کی سمجھ ضرور آگئی ہو گی : بہت ناز تھا مجھے اپنے چاہنے والوں پر میں عزیر تھا سب کو مگر ضرورتوں کے لیے سینٹ انتخابات کے بعد آصف علی زرداری کے اسمبلیوں سے استعفے دینے سے انکار اور پی ڈی ایم میں اختلافات کے بعد سیاسی منظر نامے پر قیاس آرائیوں کا طوفان امڈ آنا باعث تعجب اس لئے نہیں کیونکہ خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔ یہ خواہش کو خبر بنانا نہیں تو اور کیا ہے کہ زور آزمائی تو سینٹ میں ہو رہی تھی اور بیچ چوراہے ہنڈیا پی ڈی ایم کی پھوٹی مگر ہمارے سیاسی مبصرین کی تان عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کے خاتمے پر ٹوٹنے لگی۔ ہر کوئی اپنے اپنے ذرائع سے انکشاف کر رہا ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا ہے ان انکشاف کو بے بنیاد اور من گھڑت نہ بھی کہا جائے پھر بھی اس امر سے مفر تو ممکن نہیں کہ ذرائع کبھی پوری حقیقت نہیں بتاتے بلکہ اشاروں میں امکانات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اب یہ خبر بنانے والے پر منحصر ہوتاہے کہ وہ اطلاعات کے تانے بانے کس طرح بنتا ہے۔ اس حوالے سے عثمان بزدار کے ساتھ البتہ زیادتی یہ ہوئی کہ کہانی بنانے والوں کو عثمان بزدار کی تبدیلی کی وجہ پنجاب میں بیڈ گورننس نظر آئی حالانکہ بیڈ گورننس کو صرف پنجاب تک محدود کرنا ناانصافی ہو گی۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام تحریک انصاف کی کارکردگی سے ممکن نہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کی وجہ عثمان بزدار ہیں نا ہی صرف پنجاب کی صورتحال ۔ تحریک انصاف سے عوام کی بے زاری عثمان بزدار نہیں بلکہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے ۔ ایسا نہیں کہ آٹا چینی پنجاب میں باقی صوبوں کی نسبت مہنگی ہو یا پنجاب میں امن و امان کی صورت حال ہی دوسرے صوبوں سے بری ہو۔ اگر مہنگائی بے روزگاری کی صورتحال پورے ملک میں ایک جیسی ہے تو پھر صرف عثمان بزدار کو ہٹانے سے پورے ملک میں بہتری کیونکر ممکن ہو سکتی ہے؟ تبدیلی کی وجہ سیاسی کمزور ی اس لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ اسی کم گو کمزور وزیر اعلیٰ نے پنجاب کے معاملات سنبھالے ہوئے ہیں اور اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت بھی برقرار ہے اگر تحریک انصاف کے ناراض ارکان کو ہی معیار مان لیا جائے تب بھی عثمان بزدار سے ناراض ارکان کی تعداد وزیر اعلیٰ کے پی کے سے ناراض اراکین صوبائی اسمبلی سے خاصی کم ہے۔ اس حوالے سے اقتدار کے ایوانوں کی خبر رکھنے والے ایک صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے عثمان بزدار کی تبدیلی کی وجہ کمزور یا طاقت ور وزیر اعلیٰ نہیں بتائی بلکہ اس امکان کو سیاسی ضرورت کے تناظر میں دیکھا۔ ضمنی انتخابات کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ تحریک انصاف بھلے ہی پنجاب میں پہلے سے مضبوط ہوئی ہو مگر پانچ سال بعد بھی پنجاب میں مسلم لیگ ن کا مقابلہ نہ کر سکے گی اور مہنگائی کی وجہ سے عوام کی بڑھتی مایوسی کا فائدہ آئندہ الیکشن میںمسلم لیگ ن کو ہی ہو گا۔ اس ممکنہ صورتحال کے لیے نئی سیاسی حکمت عملی طے کرنا ضروری ہے اور پھر عمران خان نے پانچ سال بعد تحریک انصاف کی کارکردگی کا احتساب کرنے کا کہا اور یقین ظاہر کیا ہے کہ تحریک انصاف 2018ء میں عوام سے کیے تمام وعدے پورے کرے گی۔ عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے خواہش مند اس سیاسی ضرورت کو اپنی اپنی خواہشات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں مگر ایک بات بھول رہے ہیں کہ تحریک انصاف نے 2018ء کے الیکشن میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ بھی کیا ہے جس کو سینٹ الیکشن کے بعد پورا ہونا ہے ۔اب تک تحریک انصاف صوبہ نہ بنائے جانے کا عذر سینٹ میں تحریک انصاف کی اکثریت نہ ہونا بتاتی رہی اب یہ جواز نہیں رہا۔ تحریک انصاف کو اگر یہ وعدہ پورا کرنا ہے تو پھر قومی اسمبلی کے ساتھ سینٹ میں اتحادیوں کے علاوہ دیگر جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی۔ عمران خان اڑھائی سال میں اتنی سیاست تو سیکھ چکے ہیں کہ سیاست میں ضد نہیں کچھ لو اور کچھ دو کا فارمولا چلتا ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں ایک مشکل پاکستان مسلم لیگ ق کی بھر پور حمایت کا نہ ہونا بھی ہے۔ عمران خان جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنا کر عثمان بزدار کو وہاں کا وزیر اعلی بنانے کو شرط پر وسطی پنجاب میں پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کر سکتے ہیں ۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تحریک انصاف 2023ء کے انتخابات میں اپنے زور بازو پر مسلم لیگ ن کو پنجاب میں نہیں ہرا سکتی ۔عمران خان جنوبی پنجاب لے کر پنجاب کا معرکہ پرویز الٰہی کے سپرد کرسکتے ہیں مگر اس امکان کے ممکن ہونے میں بھی کم از کم ایک سال مزید درکار ہو گا۔ آخری سال میں مسلم لیگ ق تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف مسلم لیگ ق کے تعاون سے جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی سے مقابلے کی پوزیشن میں ہوں گی۔ آصف علی زرداری بھی چاہیں گے کہ وہ پی ڈی ایم میں رہ کر مسلم لیگ ن کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے بجائے جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کا مقابلہ کر کے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ایک بار پھر زندہ کریں ۔