بدقسمتی سے پاکستانی سیاست 70ء کے پہلے بالغ رائے دہی کے انتخاب کو چھوڑ کر ہمیشہ شخصی یا فرد ِ واحدکی بنیاد پر تقسیم ہوتی رہی۔شخصیت پرستی کی جڑ یں بہر حال برصغیر پاک و ہند میںہی نہیں۔ ۔۔ اس پورے ریجن میں بڑی گہری رہی ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ عوام کی اکثریت نظریہ سے زیادہ ان کی اسیر بھی رہی۔حتیٰ کہ جس سیکولر بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہا جاتا ہے ،وہاں بھی سیاسی تقسیم کی بنیاد لیڈر شپ ر ہی اور نہرو خاندان نے 50سال بھارتی سیاست پر راج کیا۔ادھر دہائی اوپر سے انتہا پسند نریندر مودی ۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بہرحال کانگریس اور اُس کی مخالف بی جے پی ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنی جماعتیں گراس رُوٹ لیول پر بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔70ء کی دہائی میں جب مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان مقبول ترین سیاسی رہنما کی حیثیت سے سامنے آئے تو بہر حال پیپلز پارٹی محض تین سال میں ڈسٹرکٹ بلکہ ٹاؤن کی سطح پر اپنی تنظیم بنا چکی تھی۔اور پھر جب 70ء کے الیکشن ہوئے تو اکثریت قومی و صوبائی اسمبلیوں میں درمیانی طبقے کے بائیں بازو کے کمٹڈ کارکن ہی کامیاب رہے۔یہی صورت حال عوامی لیگ کی بھی تھی کہ1954ء کے الیکشن میںہونے والے پہلے صوبائی انتخاب میں عوامی لیگ کے ارکان صوبائی اسمبلی میں بھاری تعداد میں کامیاب ہوئے تھے۔اور پھر بنگلہ دیش کی آزادی میں بھی بھارت کی عسکری ،سیاسی جماعت اپنی جگہ مگر اس جد و جہد میں زیادہ بڑی قربانیاں تو عوامی لیگی کارکنوں اور مکتی باہنی نے ہی دیں۔مگر اُس کے مقابلے میں بانی ِ پاکستان قائد اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے ساتھ ہی تنظیمی طور پر بھی دفن ہوچکی تھی۔یقینا جب مسلم لیگ ،دولتانوں ،ٹوانوں ، پگاروں،چوہدریوں سے ہوتی میاں نواز شریف تک پہنچی تو انہیں دسمبر 1988ء کے پہلے انتخابات میں اس بات کا موقع ملا تھا کہ وہ مسلم لیگ کو اس کی روح کے مطابق بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے راستے پرچلتے ہوئے اسے دوبارہ تنظیمی طور پر کھڑا کرتے ،کیونکہ بہرحال چاروں صوبوں میں نظری طور پر مسلم لیگ سے وابستہ درمیانہ طبقے کے کارکنوں اور حامیوں کی بھی ایک بڑی تعداد اس سے آس لگائے بیٹھی تھی۔مگر ہمارے محترم میاں نواز شریف میں ،جنہیں بہرحال اسٹیبلشمنٹ کی بے ساکھیوں نے اس مقام تک پہنچایا تھا۔ایسا ’’خمیر‘‘ ہی نہیں تھا کہ وہ کسی جماعت کو منظم کرنے اور اسے تنظیمی طور پر عوام میں منظم کرنے گورکھ دھندے میں پڑتے ۔اپنی ہی مسلم لیگ کے صدر سانگھڑ کے غریب محمد خاں جونیجو کو بھرے عوامی کنونشن میں جس طرح اسٹیج سے اتار کر پھینکا گیا۔ ۔۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اصلی تے وڈی شریفوں کی لیگ چاہتے ہیں۔پاکستانی سیاست کا ستّر اور پھر اسّی کی دہائی تک تو یہ المیہ رہا کہ یہ ProاورAntiبھٹو میں تقسیم رہی۔قیام پاکستان کے ساتھ ہماری مضبوط اسٹیبلشمنٹ وضاحت کرنے میں حرج نہیں کہ معروف معنوں میں اس کا مطلب عدلیہ ،جی ایچ کیواور سویلین ملٹری نوکر شاہی کا گٹھ جوڑ لیاجاتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو ایک مختصر عرصے کے لئے اقتدار دینا اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت اور مجبوری تھی۔اور پھر جب یہ ضرورت اور مجبوری نہیں رہی تو پھر اس کا جس طرح محض تختہ نہیں،تختہ دار مقدر بنتا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔مجھے احساس ہے کہ ایک بار پھر بھٹک گیا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ جن سویلین،ملٹری بیوروکریٹس اورشاہراہ دستور کے جبہ دستار والوں نے میاں نواز شریف کو پال پوس کر سیاسی طور پر اقتدار کی سب سے اونچی مسند پر بٹھا کر ان کا کلّہ مضبوط کیا۔آخر انہوں نے یکہ بعد دیگرے انہیں کیوں دھوکہ اور دھکہ دیا۔سند کے لئے ایک دو مثالیں ہی دوں گا۔پیپلز پارٹی کے پہلے اور دوسرے دور کے منہ چڑھے ،آغا شورش کاشمیری کے شاگرد مرحوم اظہرسہیل کی یہ بدقسمتی رہی کہ صاحب ِ طرز لکھاری ہونے کے باوجود اُن کو اپنی زندگی اور بعد میں بعض وجوہ کے سبب یاد کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔حالانکہ کالم نویسی کے ساتھ اُس دور میںانہوں نے ایجنسیوں کی حکومت کے نام سے جو کتاب لکھی وہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔اس میں جو دوٹوک ،ناقابل یقین واقعات لکھے گئے ہیں ،اُنکی بعد میں کہیں تردید بھی نہیں گذری ۔اس لئے یہ مستند ہی سمجھا جائے گا۔مرحوم اظہر سہیل کا کہنا ہے اور یہ وہ 1993ء میں لکھ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کے سیاسی زوال کا سبب در اصل یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے محسنوں اورمربیوں کو ہی ڈستے ہیں۔مرحوم اظہر سہیل لکھتے ہیں: ’’آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ جنرال غلام جیلانی خان نے انہیں سیاسی طور پر تخلیق کیا۔جس کے بعد جنرل اختر عبد الرحمان ،جنرل حمید گل ،جنرل اسد درانی اور جنرل جاوید ناصر نے اپنے اپنے عہد میں ستم کے اس پودے کی آب یاری کی ،گویا وہ واحد سیاستدان تھے جن کی پرورش و پرداخت میں آئی ایس آئی کے پانچ متصل سربراہوں کی تربیت اور نگہداشت کو مکمل دخل حاصل تھا۔ان تمام جرنیلوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں اور کاوشوں کو لاہور کے اس شہری بابو پر صرف کیا اور یہی وجہ تھی 1990ء میں انہیں بے مثال دھاندلی کے ذریعہ برسر اقتدار لاتے وقت جنرل حمید گل اور جنرل اسد درانی بار بار بڑے فخر سے کہتے کہ وہ ہماری ایجنسی کے ہاتھ کا بناہوا ،ہمارا فخر اور ہمارا نشان ہے۔۔۔ ’’1990کے عام انتخابات میں جنرل حمید گل اور جنرل اسد درانی نے مل کر جو الیکشن ٹیکنالوجی استعمال کی اور جس بھدے طریقے سے میاں نواز شریف کو اقتدار میں لایا گیا ،اس کے بعد عام تاثر یہ تھا کہ کم از کم ان دونوں جرنیلوں کو تو ملک کے اعلیٰ ترین مناسب سونپے جائیں۔ہوا یہ کہ پہلے ہی دن سے جنرل درانی کے ساتھ میاں نوا ز شریف کی غلط فہمیوں کا آغاز ہوگیا۔جنرل درانی ،میاں نواز شریف کو مختلف مشورے دیتے وقت یہ بھولنے لگے کہ وہ اب آئی ایس آئی کے بہت زیادہ احسان مند رہنے والے نوا ز شریف نہیں،بلکہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ایک بار وفاقی کابینہ کے اجلاس میںجب میاں نواز شریف نے کسی سیاسی بحران کے متعلق جنرل درانی سے تحکمانہ لہجہ میں استفسار کیا کہ آئی ایس آئی نے اس معاملے میںکیا حکمت عملی اختیار کی ہے تو جنرل درانی نے بھی سخت انداز میں جواب دیا:’’جناب حکمت عملی طے کرنا سیاسی قوت کی ذمہ داری ہے۔اور ملک میں سیاسی قیادت کا جو معیا رہے وہ سبھی کو معلوم ہے۔‘‘ میں جنرل پرویز مشرف کے متنازعہ دور میں نہیں جاؤں گا کہ کس طرح میاں نواز شریف نے جنرل علی قلی خان جیسے سینئر کو ہٹا کر جنرل پرویز مشرف کو آرمی سربراہ بنایا۔پرویز مشرف اس دوران کارگل جیسی ہمالیہ جتنی بڑی غلطی کر بیٹھے تھے اس میں میاں نواز شریف کا ان کے خلاف ایکشن لینا بظاہر درست فیصلہ لگتا ہے مگر ہائی جیکنگ کے ذریعہ بھی میاںصاحب نے اپنی آرمی چیف کو فارغ کیا تو ان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں پی پی سمیت ساری مخالف سیاسی جماعتیں یک زبان تھیں۔ایک طویل جلا وطنی کے بعد 2013ء میں یقینا ایک بار پھر قسمت اور قدرت نے انہیں موقع دیا کہ وہ چالیس سالہ طویل جدوجہد کے سردو گرم کے بعد ایک قومی قائد کی حیثیت سے ابھرتے۔مگر افسوس کہ ایک بار پھر مکمل اقتدار کا سودا سر میں سمانے کے سبب آج سیاست سے ساری زندگی کیلئے نا اہل ہی نہیں ۔مگر اپنی بیماری کے سبب اپنی زندگی کے انتہائی المناک دنوں سے گذر رہے ہیں۔