میں نے اپنے ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ شروع کی تو ملک میں کوئی اور حکومت تھی۔ ریکارڈنگ ختم ہوئی تو حکومت بدل چکی تھی۔ ان دنوں ایک ہی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا‘ ابھی نجی ٹی وی کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ پی ٹی وی کا یہ بڑا ہائی پروفائل پروگرام تھا۔ کراچی کے ٹی وی سٹیشن پر اس کی میزبانی کے لیے پہنچا‘ تو سکرین پر یہ خبر چلتی نظر آئی کہ وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر کے جنرل ضیاء الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی‘ اگرچہ جنرل مشرف جگہ جگہ تندو تیز باتوں سے اشارے کر رہے تھے۔ وہ کراچی بھی آئے تھے اور ہم لوگوں سے ایسی باتیں کی تھیں کہ یقین نہیں آتا تھا کہ ایک حاضر سروس آرمی چیف اس طرح کی سیاسی باتیں کر سکتا ہے۔ اسلام آباد سے بھی اطلاعات آ رہی تھیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ دارالحکومت بڑی پر تیقن اور پر اعتماد افواہوں سے گرم تھا۔ ریکارڈنگ تو بہرحال ہونا تھی اور وہ ملک کی معاشی صورت حال کے بارے میں تھی۔ ریکارڈنگ ختم ہوئی تو اس سے پہلے کہ مائیک اتارتا‘ اطہر وقار عظیم پینل سے سیدھے میری طرف آئے اور آہستہ سے کہا اسلام آباد ٹی وی پر فوج آ چکی ہے اور فوج نے سنٹر پر پوری طرح قبضہ کر لیا ہے۔ میں جا رہا ہوں یہ کہہ کر وہ جنرل منیجر کے کمرے کی طرف چلے گئے۔ اس پروگرام کے دو کردار مجھے یاد ہیں‘ ایک اعجاز شفیع جو یہاں سے واپسی پر گرفتار کر لئے گئے اور دوسرے صبیح الدین غوثی۔نظریاتی اختلاف کے باوجود غوثی سے میرا بڑا تعلق تھا۔ وہ اقتصادی امور کے ایک منجھے ہوئے صحافی تھے اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بڑے سرگرم تھے۔ میں نے یہ خبر ان کو بتائی اور سیدھے اوپر کرنٹ افیئر کے کمرے میں جا بیٹھے۔ وہیں سے دفتر فون کیا۔ میں ان دنوں نوائے وقت کراچی کا ایڈیٹر تھا۔ اپنے چیف رپورٹر کے بارے میں پوچھا۔ معلوم ہوا وہ ایئر پورٹ جا چکا ہے‘ کیونکہ وہاں جنرل مشرف کا طیارہ کسی وقت لینڈ کر سکتا ہے۔ خبر کی کڑیاں ملتی جا رہی تھیں اور ہمارا صحافتی اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا۔ غوثی بھی اپنے دفتر سے رابطے میں مصروف تھا۔ اتنے میں خبر آئی کہ فوج کراچی سنٹر پر بھی آ چکی ہے اور اب ہم سب فوج کی ’’تحویل‘‘ میں ہیں۔ نیچے اترے تو ایک فوجی کرنل کو جنرل منیجر کے آفس کے باہر مستعد پایا۔ ظہیر خاں نے ہمارا تعارف کرایا اور بتایا یہ پروگرام میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ انہیں تو جانے دیا جائے۔ کرنیل صاحب جن کا نام غالباً محمد خاں تھا‘ بڑے بھلے آدمی تھے۔ کہنے لگے‘ مجھے پانچ منٹ دیجئے۔ ظاہر ہے نئی صورت حال تھی۔ اتنے میں وہ ہماری موجودگی میں ٹی وی کے افسران کو یہ ہدایت جاری کرتے رہے کہ سٹوڈیو تیار کیجئے۔ شاید یہاں سے ایک وی آئی پی تقریر نشر کرنا پڑے۔ صاف ظاہر تھا کہ جنرل مشرف وطن واپسی پر یہاں سے ’’میرے عزیز ہم وطنو ‘‘ والی تقریر کریں گے۔ پانچ منٹ بعد ہمیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ مگر اس ہدایت کے ساتھ کہ ہم فوج کی نقل و حرکت کا تذکرہ کسی سے نہیں کریں گے۔ باہر نکل کر دیکھا تو میری گاڑی فوجی ٹرکوں کے درمیان کھڑی تھی۔ کیسے نکلی‘ یہ الگ کہانی ہے۔ جب گیٹ پر پہنچے تو وہاں موجود محافظوں نے باہر جانے کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہمیں ہدایت نہیں۔ اتنے میں میری اہلیہ کا فون آیا‘ کہاں ہو۔ بتایا‘ ٹی وی سٹیشن پر کہنے لگیں وہاں تو فوج آ گئی ہے۔ پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا‘ کیونکہ ہمیں تو فوج کی نقل و حرکت خفیہ رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ کہنے لگیں‘ بی بی سی پر آ رہا ہے۔ یہ کہانی میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ ان دنوں کہیں میں نے 12اکتوبر کے حوالے سے ’’چشم دید احوال‘‘ پڑھا ہے۔ ہم تاریخ کو جن آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘ ان کا تاثر کبھی زائل نہیں ہوتا۔ میں ان دو چار گھنٹوں میں جس کیفیت سے گزرا‘ اس سے کچھ ایسا احساس پیدا ہوا کہ نواز شریف نے سیاسی خودکشی کی ہے۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ ملک کا سربراہ اپنے سپہ سالار کوبرطرف کرے اور یہ اندازہ نہ کر سکے کہ جواب میں بغاوت بھی ہو سکتی ہے۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا تھا۔ بھٹو صاحب نے بری اور فضائی افواج دونوں کے سربراہوں کو بیک وقت برطرف کر دیا تھا۔ مگر وہ شاید اس لیے ہوا ہو گا کہ سقوط پاکستان کے فوراً بعد کا زمانہ تھا۔ کہا جاتا ہے‘ ان دنوں فوج ذرا کمزور بنیادوں پرکھڑی ہو گی۔ چند ہی برس بعد حالات کیسے بدلے کہ ضیاء الحق نے بڑے آرام سے اقتدار پر قبضہ کیا‘ پھر بڑے اطمینان سے بھٹو کو پھانسی پر بھی لٹکا دیا۔ نواز شریف بھی بڑی آسانی سے جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لگتا تھا ! جنرل اسلم بیگ ہوں یا آصف نواز یا جہانگیر کرامت سب پر وزیر اعظم حاوی ہیں۔ ہم حضرت عمرؓ کی مثالیں دیتے ۔کہ انہوں نے کیسے اسلامی تاریخ کے عظیم المرتبت جرنیل خالد بن ولیدؓ کو برطرف کیا تھااور اس سیف اللہ نے چوں تک نہ کی تھی۔ اب بھی لگتا ہے فوج تیار تھی ادھر چیف کی برطرفی ہوئی‘ ادھر فوج نے چیف کی غیر موجودگی میں اقتدار سنبھال لیا۔ پاکستان کے حالات میں اسے میں بغاوت نہیں کہتا مگر کچھ تو کہنا پڑے گا۔ اس پورے قصے کا بعد کے واقعات سے کوئی تعلق بنتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کی کسی جرنیل سے نہیں بنتی۔ میں یہ نہیں کہتا‘ بھٹو صاحب کی بھی کب بنتی تھی۔ نتیجہ تو یہی نکلتا ہے اور آصف زرداری پر تو میمو گیٹ کا الزام ہے حالانکہ فوج کی سربراہی اس جرنیل کے پاس تھی جسے پیپلز پارٹی کا قریبی گنا جاتاتھا کہ اس نے بے نظیر کے ساتھ ڈیوٹی دی تھی۔ یہ سب کچھ ایسے نہیں ہوا کرتا۔ میں کئی واقعات جانتا ہوں جو راحیل شریف کے زمانے میں ہوئے ۔دو چار ان غلطیوں کی نشاندہی بھی ہوتی رہی ہے جو بعد کے زمانے میں ہوئیں۔ اصل بات یہ ہے ہی نہیں ‘ نہ اس میں ہر عہد کے کرداروں کے مزاج کو اہمیت ہے اسے ہمیں تاریخ کا عمل سمجھ کر پرکھنا چاہیے‘ ہمارا ملک ایک خاص حالات کا اسیر ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی تک کی بنیاد ہماری دفاعی حکمت عملی رہی ہے۔ ہم نے اگر بھارت کی طرح سوشلسٹ رجحانات کے بجائے سرمایہ دارانہ طرز حیات کو ترجیح دی تھی تو اس کی بھی یہ وجوہات تھیں۔ امریکہ سے ہمارے دفاعی معاہدے پہلے ہوئے اور اس کے نتیجے میں ہمارا پورا نظام حیات بعد میں پیدا ہوا۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم ذرا ذرا سی ضرورت کے لیے امریکہ کے محتاج تھے۔ یہ دوربھی گزر گیا۔ مشرف کا دور اس کا نکتہ عروج تھا۔ اس کے بعد کا زمانہ اسی کا ردعمل تھا۔ پاکستانی فوج نے پہلی بار امریکہ سے آنکھیں چار کیں۔ کیری لوگر بل پر پاک فوج نے کھل کر اعتراضات کئے اور ایسی باتیں واشگاف کیں جو پہلے صیغہ راز میں رکھی جاتی تھیں‘ مثلاً معلوم ہوا امریکہ چاہتا ہے کہ کرنل کے اوپر سب افسران کی تقرری ان سے پوچھ کر کی جائے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس خطے میں ہماری فوج کو کس نظر سے دیکھتا رہا ہے اور اس میں مزید توسیع چاہتاہے۔ مگر اصل مزاحمت اس وقت ہوئی جب سلالہ کے واقعہ کے بعد ہم نے نیٹو کی سپلائی بند کر دی۔ یہ اقدامات صرف اس وقت ہو سکتے ہیں جب فوج اور سویلین ایک پیج پر ہوں۔ اس بات کا مفہوم اس پس منظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے شمسی اورشہباز ایئر بیس کے راز ہم کو کب معلوم تھے۔ بہت سی باتیں ہیں جو آج بھی صیغہ راز میں ہے۔ اس وقت ہم جس صورت حال میں ہیں۔ اس کا اندازہ صرف ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ اب ورلڈ آرڈر بدل رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد شاید پہلی بار دنیا اس طرح بدل رہی ہے۔ اب تک جو کچھ چلتا آیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں یا ہمارے اردگرد‘ وسط ایشیا یا مشرق بعید میں یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا نقشہ ہے زیادہ نہ ہی پوچھئے تو بہتر ہے۔ اب یہ نقشہ بدل رہا ہے جغرافیائی نہیں‘ تزویری ہے ۔یہ سی پیک اور آئی ایم ایف کی بحث نہیں ہے۔ ہے بھی مگر ایک دوسرے گہرے مفہوم میں۔ اس وقت اس صورت حال سے ہم ایک بکھری ہوئی قوم بن کر نہیں نمٹ سکتے۔میں بار بار کہتاہوں کہ ہماری فوج ایک قومی فوج ہے۔ وہ سی پیک کی ضامن بھی ہے۔ اس لحاظ سے فوج کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے ادھر ابھی سیاست کا حال یہ ہے کہ وہ باہمی تنازعات کی انتہا پر ہے۔ بس اتنا عرض کرنا ہے کہ جب تاریخ کروٹ بدل رہی ہے ہمیں بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنے آئیڈیل ازم کو چھوڑ کر ایک بڑے مقصد کو ذہن میں رکھنا وقت کا تقاضا ہے۔ اس سے آسان لفظوں میں بھی بیان کر سکتا ہوں۔ درست کہ مرے بھی ہیں کچھ خواب ہیں ۔مگر کہیں یہ نہ ہو کہ میں یہ کہنے لگوں میرے خواب بکھرتے جاتے ہیں۔ اپنے خوابوں کو بکھرنے سے بچائیے۔ آنکھیں کھولئے ‘ ٹھوس حقیقت کا سورج نصف النہار پر ہے۔ ایسے میں خوابوں کو دن کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔