’’موجودہ امریکی تاریخ میں کارٹر سب سے زیادہ مستعد اور باصلاحیت صدر تھے۔ انہوں نے خارجہ محاذ پر کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے سمیت بہت کچھ حاصل کیا تاہم سیاسی اعتبار سے وہ بدقسمت رہے۔ تیل کی بڑھتی قیمتوں نے ملکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکی سفارتی عملے کو ایران میں یرغمال بنائے جانے کا واقعہ ہماری بے بسی ثابت ہوا۔ افغانستان میں سوویت مداخلت نے ہماری خارجہ پالیسی کو موڑ دیا۔ ری پبلکن امیدوار رونالڈ ریگن ڈیمو کریٹس کی توقعات سے زیادہ متحرک ہوئے۔20جنوری 1981ء کو نئے صدر نے وائٹ ہائوس میں آنا تھا۔ مجھے اور کرسٹائن کو دوپہر کی تقریب کے لئے رکنا پڑا۔ ایرانیوں نے جمی کارٹر کی بات نہ مانی مگر ریگن کے حلف اٹھانے کے موقع پر یرغمالی رہا کرنے کا اعلان کر کے وائٹ ہائوس میں نئے صدر کے ری پبلکن سٹاف کو قہقہوں کا موقع دیا۔ میں ان کے قہقہوں میں جلے دل کے ساتھ موجود تھی۔ حلف کے بعد ہم فوراً وائٹ ہائوس سے نکلے اور میری لینڈ بیس پہنچے جہاں زرد اور بے جان کارٹر غم زدہ چہرے کے ساتھ اپنے سٹاف کو الوداع کہہ رہے تھے۔‘‘ ’’امریکہ نے یمن اور افغانستان پر کروز میزائل داغے۔ میزائل حملے کے دو روز بعد سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مائیکل میلانوسکی کو ملا عمر کی کال موصول ہوئی۔ مائیکل جنوب ایشیا بیورو کے سینئر رکن تھے۔ طالبان کے بانی نے کبھی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ یہ خلاف معمول تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صدر کلنٹن مستعفی ہو جائیں۔ امریکی افواج سعودی عرب سے نکل جائیں۔ مائیکل نے ملا عمر کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ ملا عمر کو مذاکرات کا کہا گیا جس پر وہ رضا مند ہو گئے۔‘‘ ’’1998ء کے دوران مونیکا لیونسکی کی کہانی ہیڈ لائنز کا حصہ بن گئی۔ اس معاملے نے ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی سے نہ روکا۔ جب سب کچھ ہو رہا تھا تو ہماری خارجہ امور کی ٹیم اپنا کام کر رہی تھی۔ ہم اس معاملے پر زیادہ بات نہ کرتے‘ ہم صرف خارجہ امور کے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیتے نہ ہم نے اس سلسلے میں صدر کلنٹن کو مشورہ دینے کی کوشش کی‘ جس کی انہیں ضرورت بھی نہ تھی۔ ہم لوگوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ امریکی مفادات کا ہر صورت تحفظ کیسے کیا جائے۔ ان دنوں ہیلری سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کا حال احوال پوچھا۔ مجھے کیمپ ڈیوڈ میں دوبارہ مدعو کیا گیا۔ مجھے لگا ہیلری بہت سے معاملات میں محتاط ہیں۔ کلنٹن خاندان پر یہ وقت بڑی آزمائش کا تھا۔ وہ آپس میں زبردستی کی مسکراہٹ سے صرف ضرورت کے وقت بات کرتے‘‘۔ ’’مئی 1991ء میں بھارتی حکومت نے زیر زمین ایٹمی دھماکے کئے۔ اگرچہ ہم نے بہت کوشش کی کہ پاکستان بھارتی دھماکوں کے جواب میں ایسا نہ کرے مگر دو ہفتے کے بعد پاکستان نے بھی دھماکے کر دیے۔ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران بھارت اور پاکستان تین جنگیں اور بے شمار جھڑپیں کر چکے ہیں۔ ان کے ایٹمی ہتھیاروں کے باعث دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو گئی ہے‘‘۔ ’’افریقی ممالک کے دورہ کے دوران مجھے حیرت ہوئی کہ کئی جنگجو بہت کم سن تھے۔ بہت سوں کی عمر تو دس سال سے بھی کم تھی۔ مجھے اس بات پر کوفت ہوئی کہ اقوام متحدہ نے جب ان کو غیر مسلح ہونے کی پیشکش کی تو انہیں اپنی زندگی نئے ڈھنگ سے شروع کرنے کے لئے جو بحالی پیکیج دیا وہ چند ڈالر کا تھا۔ کچھ کپڑے اور ایک ٹوتھ برش۔ اس سامان کے ساتھ معمول کی زندگی شروع نہیں کی جا سکتی تھی۔ بندوق نے ان بچوں کو طاقت کا احساس دیا تھا‘ شناخت دی تھی۔ ایک ٹوتھ برش ان کی کیا مدد کرتا۔ انہیں تعلیم‘ ملازمت کی ضرورت تھی۔ انہیں یہ کون دیتا‘‘؟ ’’7مئی 1999ء کو میں سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے ساتھ میٹنگ سے فارغ ہوئی تو میری معاون الیکس وولف نے بتایا کہ سی این این پر خبر چل رہی ہے ‘ نیٹو طیاروں نے بلغراد میں چینی سفارت خانے پر بمباری کی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں اطلاع مل گئی کہ بی ٹو طیاروں نے یوگو سلاویہ کا اسلحہ ڈپو سمجھ کر جس عمارت پر کئی بار بم گرائے وہ چینی سفارت خانہ تھی۔ پائلٹ بدقسمتی سے بدحواسی کا شکار ہو گئے۔تین چینی ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔ اس بار نیٹو کی بطور فوجی اتحاد غلطی نے اس کی ساکھ پر منفی اثر ڈالا۔ چینیوں کو سمجھانا بہت مشکل تھا کہ یہ ان پر حملہ نہیں بلکہ ایک غلطی تھی‘‘۔ میڈلین البرائٹ نے ایک استاد سے وزیرخارجہ تک کا سفر 35 برسوں میں مکمل کیا۔ وہ جب وائٹ ہائوس سٹاف میں پہلی بار شامل ہوئیں تو ان کی عمر 39 برس تھی، ان کے تین بچے تھے۔ ان کی یادداشتوں میں امریکہ کا وہ غیرمرئی پھیلائو دکھائی دیتا ہے جو اسے سپرپاور بناتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی پالیسی، سرد جنگ کے دور کی امریکی پالیسیاں، صدام حسین کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھائو، شمالی کوریا اور کیوبا کے ساتھ معاملات‘ امریکی فوجی مہموں کے مقاصد‘ امریکہ کس طرح اپنے اقتصادی و تجارتی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور دہشت گردی کے ابھرتے ہوئے خطرے کے مقابل امریکہ کا کردار سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ان یادداشتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی بھلے کتنے ہی لاابالی اور غیر ذمہ دار کھائی دیں وہ اہم فیصلوں کا اختیار پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں کو ہی دیتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کی یادداشتوں میں چند مقامات پر سرسری ذکر آیا جس سے ہماری غلط فہمی دور ہو جانی چاہئے کہ پاکستان امریکہ کے لئے بہت اہم ملک ہے۔ (ختم شد)