امریکی صدر روز ویلٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدر بننے کے بعد بھی ایک ہی دن میں کئی کئی کتابیں پڑھ لیا کرتے تھے، ایک کتاب ناشتے سے پہلے، ایک دوپہر کو اور ایک شام کو،اس کے بعد وہ دو کتابیں اور پڑھنا شروع ہوجاتے اور ان کتابوں کو ادھورا چھوڑ کر بقیہ اگلے دن پر چھوڑ دیتے، پاکستان میں بھی کتاب پڑھنے کا رواج اور رحجان کئی برسوں تک مروج رہا، ہم بھی ایک دن میں کم از کم ایک سے زیادہ کتابیں پڑھ لیا کرتے تھے، فکشن بھی اور نان فکشن بھی۔ یہ کلچر ہمیں اپنے ہاں آج نظر نہیں آتا لیکن اس جدید ترین کمپیوٹرائز دور میں بھی میں نے کئی ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کو کتاب سے عشق کرتے دیکھا ہے، ہمارے ہاں لوگ یہ تو بتا دیتے ہیں کہ گورے اپنی زندگی کا ایک بھی لمحہ ضائع نہیں کرتے وہ سڑک پار کرتے ہوئے بھی ریڈ لائٹ دیکھیں تو لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں، یورپ جیسے ممالک میں کئی کئی سال گزار کر واپس آنے والے اپنے لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ گورے بسوں اور ٹرینوں میں سفر کے دوران نہ خواتین کو تنگ کرتے ہیں نہ میوزک سنتے ہیں وہ اپنا سفر جو دس منٹ کا ہو یا تین گھنٹوں کا‘ کتاب پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں، آج سن دو ہزار انیس میں موبائل فون اپلی کیشن بلینکس متعارف کرائی گئی ہے، جس کی مدد سے آپ ایک ہی دن میں کئی کتابیں پڑھ سکتے ہیں،اس جدید ٹیکنالوجی میں کتاب کا حجم کم ہوجاتا ہے،اس تکنیک کی مدد سے لوگ پندرہ منٹ میں ایک کتاب کو پڑھ لیتے ہیں، کتاب کے عاشقوں نے اس ٹیکنالوجی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اختصاریہ مکمل کتاب کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ ٭٭٭٭٭ اسلم گورداسپوری صاحب کی نئی کتاب چھپ کر آگئی ہے،تقریب رونمائی کی تیاریاں ہو رہی ہیں، مجھے انہوں نے،، تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے،کا نسخہ فوٹو گرافر امجد کے ہاتھ بھجوایا ہے، یہ خود نوشت پڑھنا شروع کی تو تین سو اٹھائیس صفحات ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے، مجھے آج تک بے شمار سوانح عمریاں پڑھنے کا موقع ملا ہے، فکشن سوانح عمریاں بھی، مگر یہ پہلی خود نوشت ہے جس نے مجھے احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ، اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے میرا وہم تھا کہ جنتی جہد مسلسل میں نے کی ہے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے زندگی کی اتنی مشقت کاٹی ہو، ہاں! میں نے واقعی زندگی میں بہت سختیاں جھیلی ہیں، عام بچوں کی طرح اپنا بچپن نہیں گزارا، ایسا لگتا ہے کہ میں پیدا ہوا اور اپنے پیدا ہونے کا تاوان ادا کرنا شروع کر دیا‘ ہم نے تواس سے بڑی عیاشی اورکوئی نہیں کی کہ جب چاہا حالات سے فرار اختیار کرلیا یا بغاوت کردی، انیس سو ستتر تک تو یہی کیفیت رہی، ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو سوچا یہ جان ویسے بھی تو جانی ہے، چلو، اسے عوام اور جمہوریت کے لئے وقف کردیں، صحافت کے میدان میں نمایاں پوزیشن ملی تو خیال آیا کہ کیوں نہ یہ زندگی کی آزادی پرہی قربان کردیں، اس کے سوا اور کیا کیا ہم نے کچھ بھی تو نہیں۔۔ واقعی کچھ بھی نہیں،،، کوڑے تو ساٹھ ہزار پاکستانیوں کو لگے تھے ہم اس لئے اہم ہوگئے کہ تعلق صحافت سے تھا، ورنہ دوسروں کی طرح ہماری یہ قربانی بھی ابتدا میں ہی رائیگاں جاتی، اسلم گورداسپوری کی کتاب کے مندرجات پڑھ کر پتہ چلا کہ وہ مجھ سے صرف بارہ تیرہ سال بڑے ہیں حالانکہ میرا ان سے تعلق نصف صدی کاہے، میرے لاشعور میں تھا کہ شاید ان کے اور میرے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے،وہ ستتر برس کی عمر میں جس معاملہ سود وزیاں کا ذکر کر تے ہیں، میں اس کا حساب ابھی نہیں کرپایا، ہاں! یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اگلے تیرہ برس بھی اسی طرح بسر ہو جائیں گے جس طرح پینسٹھ برس بیتے ہیں، اس کتاب میں اسلم گورداسپوری کی شاعری کے کئی رنگ نمایاں ہیں، مگر ان کا یہ ایک صرف مصرعہ ہی ان کی ساری شاعری اور ساری ریاضت پر بھاری ہے۔ یہ کوئی عام مصرعہ نہیں، اسے لکھنے والے کو کچھ اور لکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ’’میں اہم تھا، یہی میرا وہم تھا ‘‘ کاش اسلم گورداسپوری نے یہ مصرعہ کچھ ماہ پہلے چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار کو پڑھوا دیا ہوتا جو اب جاتے جاتے کہہ رہے ہیں کہ ان کی عدالتی فعالیت کے پیچھے کوئی مقصد کار فرما نہیں تھا‘ وہ اپنے تئیں درست فرماتے ہوں گے۔ جناب چیف جسٹس!یہ کردار اگر آپ نہ نبھاتے تو اسے کسی دوسرے عادل نے نبھانا تھا جو آپ کی جگہ اس کرسی پر ہوتا۔ آپ نے اپنے اس کردار کو خوب ایمانداری سے نبھایا۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ نے جو کیا اس ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ہی کیا۔ ٭٭٭٭٭ اسلم گورداسپوری نے میری تو ساری جدوجہد ہی مٹی میں ملا دی کیونکہ میں ہمیشہ اسی وہم میں مبتلا رہا کہ میں اہم تھا اور میں اہم ہوں۔۔۔۔ اس خود نوشت کی سب سے اعلی خوبی یہ ہے کہ اسلم گورداسپوری نے کسی سے کچھ نہیں چھپایا، جو جو سچ تھا سب اگل دیا، میں نے کچھ ہی عرصہ پہلے چھپنے والی مشعل اوبامہ کی سوانح عمری بھی پڑھی ہے۔ جس کی اشاعت کے پندرہ دن بعد ہی اس کی بیس لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئیں، مجھے آندرے ماؤ روس کی سوانح عمری ،، کالا پانی۔۔ پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہے، مجھے انیس سو سرسٹھ میں پہلی بار شائع ہونے والی مشتاق احمد یوسفی کی کتاب۔۔ زر گزشت۔۔ پڑھنے کا بھی موقع ملا۔ جو ابتک چھپ رہی ہے، میں نے جوش ملیح آبادی کی ،،یادوں کی بارات کئی بار پڑھی۔ لیکن ہم اسلم گورداسپوری کی خود نوشت کا کسی بھی اور سوانح عمری سے تقابل اس لئے نہیں کرسکتے کہ جس خطے اور جس طبقے سے اسلم گورداسپوری کا تعلق ہے، وہاں یہ سب کچھ کہہ جانا آسان نہیں ہوتا۔ ٭٭٭٭٭ ہمارے زمانے میں ٹاٹ والے سرکاری اسکولوں میں بچوں کی پٹائی کیسے کیسے ظالمانہ طریقوں سے ہوتی تھی، کتاب کا یہ باب آجکل کے بچوں کو پڑھانا بہت ضروری ہے، ہمارے دور میں باپ اور بچوں کے مابین کتنا فاصلہ ہوتا تھا یہ بھی آج کی نسل کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا، اسلم گورداسپوری اور تو کچھ نہ کر سکے اپنے والد محترم کو بہت مہارت سے متعارف کرا گئے، کہتے ہیں کہ ان کے والد صوفی اشرف خان کو موسیقی سے بہت لگاؤ تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ نور جہاں کی بہن عیدن بائی نور جہاں سے بہت بڑی گلوکارہ تھیں، نور جہاں کو اس کے معاشقوں نے ملکہ ترنم بنا دیا اور عیدن بائی کے معاشقوں نے انہیں موسیقی سے بیت دور کر دیا۔ ٭٭٭٭٭ خود پسند اسلم گورداسپوری کا پہلا شوق فلمی ہیرو بننا تھا، نگار خانوں میں مزدوری کرنے اور دھکے کھانے کے بعد وہ خوش قسمتی سے بابا ظہیر کاشمیری کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے انہیں کندن بنا دیا، انہی کی بدولت وہ انقلابیوں سے متعارف ہوئے، ڈاکٹر مبارک علی سے ملنا بھی انکی خوش نصیبی تھی ، انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لیا، بھٹو کو اپنا محبوب بنایا، سختیاں جھیلیں، مشقتیں کیں،،، اسلم گورداسپوری نے پوری ایمانداری سے پورا سچ بول دیا ہے، اس سچ کا ماخذ یہ ہے کہ ساری کی ساری جدوجہد بے سود رہی ، اکارت گئی، کوئی انقلاب آیا نہ کوئی تغیر نہ کوئی تبدل۔ گھر سے نکلے تھے کہ تسخیر کریں گے دنیا شرم آتی ہے ہمیں لوٹ کے گھر جانے پر