قارئین! کورونا کی وجہ سے ہلاکتوں کی خبریں تو مسلسل آرہی ہیں لیکن یہ محض اِتفاق ہے کہ اِس ہفتے ملک بھر سے کسی بیوی کے ہاتھوں اُس کے خاوند کے قتل کی خبر موصول نہیں ُہوئی۔ اِس سے آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ ایسی کوئی واردات ُخدانخواستہ ُہوئی ہی نہ ہوگی۔ بیویوں سے اِس قدر غفلت اور کوتاہی کی اُمید کم اَز کم ہمیں تو ہرگز نہیں۔ بات صرف اِتنی ہے کہ بعض اَوقات پولیس اَور اَخبارات کے نامہ نگار، مصروفیت کے باعث اِرد ِگرد سے قدرے غافل ہو جاتے ہیں اَور ُیوں کئی ایک وارداتیںمناسب پبلسٹی سے محروم َرہ جاتی ہیں۔ لہٰذا آپ مایوس نہ ہوں! َعین ممکن ہے کہ اگلے ہفتے آپ کو ایک چھوڑ دو خاوند ُکش بیویوں کی خبریں پڑھنے کو مل جائیںاَور یہ بھی ممکن ہے کہ ُوہ خبریں آپ کے بجائے آپ کے دوست اَحباب اَور اَعزّہ و اَقارِب پڑھ رہے ہوں اَور آپ جوار ِ رحمت میں ملنے والی جگہ کی رجسٹری کروا رہے ہوں! تاہم یہ ہفتہ بالکل بھی خالی نہیں گیا۔ کوٹ عبدالمالک میں قتل ہونے والے خاوندابراہیم عرف ِ ّبلا کے مقدمے کی مزید تفصیلات معلوم ہوئی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ بعض نا عاقبت اَندیش بیویاںخاوند کے قتل کی منصوبہ بندی اِس قدر ناقص طریقے سے کرتی ہیں کہ نہ صرف خود کو بلکہ اپنے آشنا کو بھی لے ڈوبتی ہیں۔ اِس داستان میں دیگر بیویوں کے لیے عبرت کے ہزار پہلو موجود ہیں۔ اُمید ہے کہ ُوہ اِس سے عبرت کے علاوہ َرہنمائی بھی حاصل کریں گی اَور اَپنا فرض ایسی مہارت اَور صفائی سے اَدا کریں گی کہ پولیس بدحواس ہو کر نامعلوم قاتلوں اَورڈاکوئوں کی تلاش میں َسرگرداں ہو جائے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم عرف ِ ّبلا مر ُحوم کی بیوی کے َرمز آشنا‘ محمد صدیق نے علاقہ مجسٹریٹ فیروز والا کی عدالت میں پیش ہو کر در ِج ذیل اِقبالی بیان قلم بند کروایا ہے: مسز ِ ّبلا (سکینہ بی بی) سے میرے تعلقات کی اِبتدا آج سے تینسال پیشتر جنوری کی ایک َسرد شام کو ُہوئی تھی۔ اُس شام میں نے پہلی مرتبہ سکینہ کے ہاتھ کی بنی ُہوئی چائے پی۔مجھے ابھی تک یاد ہے کہ مجھ سے چائے کی خالی پیالی واپس لیتے وقت اُس کے حسین چہرے پر شرم و َحیا کی ُسرخی َدوڑ گئی تھی۔ آہ‘ وہ لمحات!… اَب تو میرے دامن میں اُن لمحات کی یادوں کی راکھ کے ِسوا کچھ بھی نہیں۔اُس روز َمیں ابراہیم کے نئے دوست کی حیثیت سے، سکینہ کے گھر میں پہلی بار داخل ہوا تھااَور پھر تو یہ گھر ہی میری آرزوئوں اَور ّ تمنائوں کا محور بن کر َرہ گیا تھا۔ جس روز میں سکینہ کو کم اَز کم تین مرتبہ نہ دیکھ لیتا‘ میری روٹی ہضم نہ ہوتی تھی… روٹی تو کیا کھچڑی بھی ہضم نہ ہوتی تھی۔ کہتے ہیں کہ عشق اَور ُمشک چھپائے نہیں چھپتے۔ ہمارا عشق بھی آ ِخر کب تک چھپا َرہ سکتا تھا! لوگوں کی شک بھری نظریں سرگوشیوں میں تبدیل ہو کر اُن کے ہونٹوں پر آگئیں تو ابراہیم کے کان بھی کھڑے ہوگئے۔ ُوہ مرو ّت کا مارا مجھے تو کچھ نہ َکہہ سکا لیکن ملازمت چھوڑ کر گھر میں بیٹھ گیا۔ اُس کی یہ حرکت ہمارے لہلہاتے ہوئے چمن پر بجلی بن کر ِگری اور نوخیر غنچوں کو بھی راکھ کر گئی۔ تب ہم نے ُمحسوس کیا کہ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے؛ اَور پھر اُس رات جب چاند بادلوں کی اوٹ سے جھانک جھانک کر تھک گیا تھاہم نے خشک برساتی نالے کے ُپل کے نیچے نرم و گداز ریت پر بیٹھے بیٹھے ُوہ فیصلہ کر لیا جس پر َمیں آج بھی شرمندہ نہیں ُہوں! سکینہ نے نیم وا آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا: بِلّاکو ختم کر دینا چاہیے! اَور تب میں نے کہا: سکینہ! تیری خا ِطر بِلّاتو کیا‘ میں اُس کی ساتپشتوں کو بھی ختم کر دُوں گا۔ بس اَب یہ سوچنا باقی ہے کہ اِس کام کے لیے موزوں آدمی کون ہو سکتا ہے! سکینہ میرے کندھوں پر َسر رکھ کر گانے لگی…میں تیری آں… اَور تب مجھے اَپنے ماموں الیاس کا خیال آیا جس کی ز ِندگی ایک عرصے سے غربت و اِفلاس کے اَندھیروں میں ر ِینگ ر ِینگ کر بسر ہو رہی تھی۔ اگلیہی روز میںنے ماموں الیاس سے کہا:’’میں تمھیں ایک کام د ِلا سکتا ُہوں!‘‘وہ بولا: ’’کہو!‘‘میں نے کہا: ’’بندہ مارنا ہے!‘‘ماموں نے کچھ سوچ کر جواب دیا: ’’دوہزار لگیںگے!‘‘ میں نے کہا: ’’وکیلوں جیسی بات مت کرو‘ ایک ہزار لے لو‘ ورنہ یہ کام ہم کسی اَور سے کروا لیں گے!‘‘ماموں بولا: ’’بھانجا سمجھ کر رعایت کر دیتا ُہوں‘ ورنہ میں نے اِس کام کے دو ہزارسے کم کبھی نہیں لیے!‘‘میں نے خوش ہو کر کہا:’’ز ِندہ باد ماموں‘ ز ِندہ باد!‘‘ اگلے د ِن میں نے سکینہ سے پیسے مانگے تو اُس کے پاس صرف دو َسو روپے تھے۔ لہٰذااُس نے کہا: باقی کے آٹھ سو روپے ابراہیم کی بیمہ پالیسی کی رقم ملنے پر اَدا کر دیے جائیںگے۔ آخر اَب اِس رقم کے ملنے میں دیرہی کیا َرہ گئی ہے! وقوعہ کے روز‘ماموں الیاس ُچھری سے مسلح ہو کر میرے گھر آیا… اُس نے کپڑے اُتارے اَور صرف جانگیا َکس کر‘رات کی تاریکی میں سکینہ کے گھرپہنچ گیا۔ کہاں ہے اِبراہیم؟ الیاس ماموں نے سکینہ سے ُپوچھا۔ سو رہا ہے! جواب ِملا۔ گلا کاٹنا ہے یا پیٹ پر ُچھریاں چلا کر مارنا ہے؟ گلا مت کاٹنا۔ میں اپنے شوہر کا گلا کٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ احتیاط سے پیٹ میں ُچھری اُتار دو۔ اَور ہاں‘ ذرا مجھے سگریٹ ُسلگا لینے دو۔ مصیبت کی گھڑی میں سگریٹ ہی اِنسان کا ساتھی ہے! اَور تب سکینہ نے سگریٹ ُسلگایا اَور الیاس نے ُچھری کے پے َدر پے وار کرکے اِبراہیم کو شدید زخمی کر دیا‘ اَور وہاں سے ِکھسک گیا۔ سکینہ نے ’’چورچور‘‘ کا شور مچایا‘ لوگ بھاگے آئے‘ میں بھی اُن میں شامل تھا۔ ہم نے ابراہیم کو ہسپتال پہنچایا اَور جب تھوڑی دیر بعد ُوہ ختم ہو گیا تو میں اِطمینان کا سانس لیتے ہوئے سکینہ کودِلاسا دینے لگا۔ عشق میں کیسا بلنڈر کردیا ایک ہی دل تھا سرنڈرکردیا ٭٭٭٭٭