وزیر اعظم پاکستان کادورہ سعودی عرب کئی اعتبار سے کامیاب کہا جاسکتا ہے۔دوست ممالک کے دورے سفارتی اعتبار سے ناکام کبھی نہیں ہوتے البتہ آپ اپنے تعلقات کے بل بوتے پہ ایک دوسرے سے کیا حاصل کرتے ہیں یہ ہمیشہ اہم ہوتا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات عشروں پہ محیط ہیں۔ ممالک کے درمیان تعلقات کی گہرائی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ حکومتوںکی تبدیلی سے ان پہ فرق نہ پڑے۔اگر یہ معیار سامنے رکھا جائے تو سعودی عرب اور چین ہی وہ دوممالک ہیں جن کے ساتھ تعلقات میں حکومتوں کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑا۔عشروں پہ محیط ان تعلقات میں جہاں سعودی عرب نے پاکستان کو مالی امداد فراہم کی اور مشکلات کو ریال سے رفع کیا وہیں پاکستان نے عسکری معاملات میں سعودی عرب کو کبھی تنہا چھوڑا نہ مایوس کیا۔سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف ترکی الفیصل نے ایک بار کہا تھا کہ دنیا میں شاید ہی دو ممالک کے درمیان تعلقات اتنے گہرے ہوں جتنے پاکستا ن اور سعودی عرب کے درمیان ہیں۔ساٹھ کی دہائی کی ابتدا سے پاکستانی فضائیہ سعودی فضائیہ کو تربیت دیتی رہی ہے۔ جب برطانیہ نے سعودی عرب کو فضائی تعاون کے سلسلے میں ہری جھنڈی دکھائی تو یہ پاکستان ہی تھا جس نے سعودی فضائیہ کو نہ صرف تربیت فراہم کی بلکہ اسے جیٹ طیارے تیار کرنے میں بھی مدد دی ۔ سن انہتر میں جنوبی یمن کی شورش کے دوران پاکستانی فضائیہ نے سعودی لائٹننگ طیارے خود اڑائے تھے۔ستر اور اسی کی دہائی میں پندرہ ہزار پاکستانی فوجی سعودی عرب اردن اور اسرائیل کی سرحد پہ تعینات رہے۔ پاکستان نے جب بھارت کے ایٹمی دھماکے کے جواب میں جوہری تجربات کئے اور پابندیوں کی زد میں آیا تو سعودی عرب نے اسے دو بلین ڈالر مالیت کا مفت تیل فراہم کیا۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ ان دنوں جب سعودی عرب پاکستان کے روایتی دشمن بھارت کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے حتی کہ اسے اسرائیل پرواز کے لئے اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت بھی دے رہا ہے تب بھی پاکستان کو اس پہ کوئی تشویش نہیں ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 ء نے سعودی عرب کو تیل کی انحصاری سے نکالنے کے لئے جن اقدامات کا بیڑا اٹھایا ہے اس میں دنیا کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک بھارت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔سعودی عرب یوں بھی اپنے نئے معاشی وژن کے ساتھ بدل رہا ہے۔ گو اس سے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں کمی نہیں آئے گی لیکن ان کی نوعیت امداد یا بیل آوٹ سے بڑھ کر باہمی تجارت میں تبدیل ضرور ہوجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت نے بھی اپنی توجہ سرمایہ کاری اورنئے تجارتی امکانات پہ رکھی ہے جو خوش آئندبات ہے۔ اس سلسلے میں تبدیلی گزشتہ دور حکومت میں ہی آچکی تھی جب دونوں ممالک کے درمیان ترجیحی تجارتی معاہدوں پہ مذاکرات ہوئے۔ ان میں کاروباری ویزہ پہ نرمی، اور نان ٹیرف بیرئیرزکا خاتمہ شامل تھا جو درآمدات و برآمدات میں رکاوٹ بنتے ہیں اور عام طور پہ دوست ممالک انہیں کم ترین سطح پہ رکھتے ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ اس قسم کی میٹنگ دونوں ممالک کے درمیان ساڑھے تین سال بعد ہوئی۔ کیا گزشتہ حکومت کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ سعودی عرب جو پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے اس کے اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم کم ہوتا جارہا ہے۔اسے ہوش تب آیا جب 2013-14 ء کے مقابلے میں یہ حجم گھٹ کر نصف یعنی ڈھائی بلین ڈالر رہ گیا۔اس کے علاوہ سعودی عرب سے آنے والی ریمیٹینس بھی کم ہوتی چلی گئی۔2017 میں 434 ملین ڈالر کی ریمیٹینس 2018 ء میں گیارہ فیصد کم ہوکر 384 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔اسکی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی بتائی گئی لیکن یہی ریمیٹینس دیگر خلیجی ممالک سے کم نہیں ہوئیں جبکہ یورپی ممالک سے آنے والی ریمیٹینس میں اضافہ ہوگیا۔اس کی ایک بڑی وجہ سعودی عرب میں برسرروزگار کم آمدنی والے پاکستانی مزدور ہیں جن کی حالت زار پہ تب نہیں اب بات ہوئی۔پاکستان کاسعودی عرب کے ساتھ اوسطاً ڈیڑھ بلین ڈالر کا تجارتی عدم تواز ن بھی موجودہے جس کی وجہ پاکستان سے سعودی عرب کو کم قیمت برآمدات اور سعودی عرب سے مہنگی پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد ہے۔ان حالات میں سعودی عرب ہی نہیں تمام جی سی سی ممالک کے ساتھ بارہ سال کے دوران پاکستان کے صرف دو تجارتی اجلاس ہوئے۔پاک سعودی بزنس کونسل 2000 ء میں بنی تھی جبکہ سترہ سال میں اس کے صرف تین اجلاس ہوئے ۔اسی سے پاکستان کی طرف سے باہمی تجارت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ ایران کے ساتھ پاکستان کے باہمی تجارت کے معاہدے پہلے سے موجود تھے۔۔ اب گزشتہ سال سے اگر اس باہمی تجارت میں کچھ اونگھتے ہوئے ذہن بیدار ہوئے ہیں تو اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ایک محمد بن سلمان کا وژن 2030 ء دوسرا پاکستان اور چین بلکہ چین کا گوادر میں سی پیک ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سی پیک میں شمولیت کا فیصلہ سعودی عرب نے اس سال کے اوائل میں ہی کرلیا تھا اور گوادر میں اسی ہزار ایکڑ پہ محیط آئل سٹی بنانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا ۔اب اس منصوبے کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف خلیج کے تیل کی چین تک رسائی کا وقت اور فاصلہ کم کرے گا بلکہ اسے محفوظ بھی بنائے گا۔ گوادر خلیجی تیل کی سنگیانگ تک منتقلی کا سب سے مختصراور محفوظ راستہ ہے۔آپ کو علم ہوگا کہ دنیا میں تیل اور دیگر تجارتی باربرداری کے بڑے اور نسبتا ًکم قیمت راستے سمندروں اور بحیروں سے گزرتے ہیں جنہیں چوک پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے چوک پوائنٹ عموماًسیاسی تنازعات کی زد میں رہتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک جزیرہ نما ملایا اور انڈونیشیا کے درمیان واقع آبنائے ملاکہ ہے جو چین کو خلیج سے تیل کی فراہمی کاسب سے اہم راستہ ہے۔ چین ملاکہ کے بارے میں اتنا حساس رہا ہے کہ عالمی تزویراتی سیاست میں ملاکہ ڈیلیما کے عنوان سے ایک باقاعدہ اصطلاح موجود ہے۔یہ چوک پوائنٹ ملائشیا اور انڈونیشیا کے درمیان واقع ہے جہاں سے چین کا ہی نہیں دنیا بھر کے تیل کا تیس فیصد گزرتا ہے لیکن چین تیل کا سب سے بڑا امپورٹر ہے جو گزشتہ سال امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے جبکہ خلیج کے تیل کا تقریبا ًپچاسی فیصد سینٹرل ایشیا کو درآمد ہوتا ہے۔یہ آبنائے ملاکہ خلیج فارس سے ایشیائی ممالک کو تیل اور تجارتی سامان کی ترسیل کا نسبتا ًمختصر راستہ ہے ۔ چین کے ساتھ جاپان بھی اسی آبنائے ملاکہ پہ انحصار کرنے پہ مجبور ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بھی خوشگوار نہیں ہیں۔چین کے اسی خوف کے پیش نظر ا مریکہ نے آبنائے ملاکہ میں گارنٹی کے طور پہ ا پنا بحری بیڑا بٹھا رکھا ہے۔ یہی آشیر باد چین کے مقابلے میں بھارت کو بھی حاصل ہے اور چین کو ہمہ وقت امریکہ اور بھارت کی طرف سے اس آبنائے کی بندش کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ 2020 ء تک چین کو خلیج سے تیل کی ترسیل میں مزید اضافہ ہوگا اور وہ پچھتر فیصد تک پہنچ جائے گا کیونکہ چین نے ون بیلٹ ون روڈ جیسا عظیم الشان منصوبہ شروع کررکھا ہے اور اسکی توانائی کی کھپت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ گوادر نے نہ صرف چین کا یہ مسئلہ حل کردیا ہے بلکہ آبنائے ملاکہ کی امریکہ یا بھارت کی طرف سے کسی بھی ممکنہ بندش کی صورت میںیہ مشرقی اور مغربی ایشیائی ممالک کو بھی متبادل روٹ فراہم کرے گا جس کی ضمانت خود چین دے گا۔اس وقت آبنائے ملاکہ کے ذریعے خلیجی سے تیل کو سنکیانگ پہنچنے میں پندرہ ہزار کلومیٹر طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس کی سکیورٹی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔گوادر سے گزرنے کی صورت میں یہ فاصلہ صرف چار ہزار کلومیٹر رہ جائے گا۔اس کے علاوہ وہ آئل ٹینکر جنہیں خلیج پہنچنے میں بیس دن لگتے ہیں اب اڑتالیس گھنٹوں میں گوادر پہنچ سکیں گے۔یہی خدشات جوچین کو آبنائے ملاکہ میں بھارت اور امریکہ سے لاحق ہیں ، بعینہ وہی سعودی عرب کو خلیج میں آبنائے ہرمز پہ ایران سے لاحق ہیں جسے یمن کے ساتھ سعودی عرب کے تنازعے کے دوران ایران کئی بار بند کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔دنیا کی تیل کی تجارت کا پانچواں حصہ یا بیس ملین بیرل یومیہ اسی آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔ایران کی بڑھتی ہوئی عسکری جارحیت سے تنگ آکر سعودی عرب اورامارات نے پائپ لائینیں بچھا رکھی ہیں جو اس آبنائے کو بائی پاس کرتی ہیں لیکن ان کے ذریعے بہت ہی کم ترسیل ممکن ہوتی ہے جبکہ 750 میل لمبی پیٹرولائن جو سعودی عرب سے لبنان جاتی ہے ایک دہائی سے بند ہوچکی ہے۔ آبنائے ہرمز سے صرف چار سو کلومیٹر کے فاصلے پہ گوادر پورٹ اس مسئلے کا حل بھی پیش کرتا ہے جو فاصلہ بھی بچائے گا اور سرمایہ بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا کے امیر ترین ممالک اور اپنے دوستوں کو بے تحاشہ فائدہ دینے کے بدلے میں ہم ان سے کیا وصول کررہے ہیں۔