افغانستان سے امریکہ کا انخلا اب یقینی ہے۔ گیارہ ستمبر 2021 تک انخلا حتمی طور پر مکمل ہو چکا ہو گا جس کے بعد افغانستان کی حکومت کی باگ ڈور مقامی حکمرانوں کو منتقل کر دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اب بھی مقامی لوگ ہی افغانستان پر حکمران ہیں تو انخلا کے بعد ایسی کونسی تبدیلی متوقع ہے جس نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ امریکہ طویل عرصے تک انخلا کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ صورت حال کی وجہ سے افغانستان چھوڑنے کے فیصلے پر متذبذب رہا۔ پھر ایک طویل بحث اور سٹریٹجک معاہدے کے بعد افغانستان چھوڑنے پر آمادہ ہوا۔ اس تبدیلی کا نام طالبان ہے۔ امریکہ نے گیارہ ستمبر 2001 کے سانحہ کیذمہ داری القاعدہ پر عائد کی جس کا اس وقت صدر دفتر افغانستان میں قائم تھا ،جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ پشتون مہمان نوازی اور رواداری کا تقاضا تھا کہ طالبان القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرتے۔ اسامہبن لادن ایک عرصہ امریکہ کی آنکھوں کا تارا بنا رہا۔ افغانستان سے روسی فوج کی شکست کی جد وجہد کے دوران اسامہ نے فلسفہ جہاد کی تشہیر سے لے کر جنگ میں افرادی قوت مہیا کرنے تک کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ ایک مالدار شخص تھا جسے امریکہ نے2011 میں پاکستان کے شہر ایبٹ اباد میں ایک خفیہ آپریشن کے ذریعے قتل کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسامہ کی موت کے بعد امریکہ ازخود افغانستان چھوڑنے کا اعلان کرتا، القاعدہ کی حامی حکومت تو پہلے ہی ختم ہو چکی تھی بس آخری مقصد اسامہ کو مارنا رہ گیا تھا۔ لیکن ان دس برسوں میں امریکہ کے مقاصد میں تبدیلی آ چکی تھی جس کے تحت اب وہ افغانستان میں جنگ عالمی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے لڑ رہا تھا۔ امریکی ادارہ برائے امن کی افغانستان سٹڈی رپورٹ 2021 کے مطابق اس وقت افغانستان میں دو دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں: القاعدہ اور امارت اسلامی خراسان۔ القاعدہ تین مزید تنظیموں کا مجموعہ ہے جن میں سے ایک کا تعلق تو براہ راست اسامہ بن لادن سے ہے ، دوسری تنظیم القاعدہ کے علاقائی کارندوں پر مشتمل ہے جبکہ تیسری تنظیم کا تعلق القاعدہ برصغیر سے ہے۔ امارت اسلامی نے القاعدہ کی ذیلی تنظیم کے طور پر2003 میں اپنی کارروائی کا آغاز کیا۔ بعد ازاں القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر کے اس نے اپنی انفرادی حیثیتقائم کر لی۔تنظیم کا بنیادی مقصد اسلامی خلافت کا احیا تھا۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ایسی تنظیم جس کا مقصد مسلمانوں کو ایک حکمران یعنی خلیفہ کی چھتری کے نیچے یکجا کرنا تھا اس نے کیسے مسلمانوں کو سب سے زیادہ مالی اور جانی نقصان پہنچایا۔ اسی تنظیم نے 2015 میں امارت اسلامی صوبہ خراساں بنانے کا اعلان کیا جس میں القاعدہ کے ناراض کمانڈرز کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کے انتہا پسند عناصر بھی شامل تھے۔ اس تنظیم کو امریکہ، پاکستان اور افغانی فوج کی مشترکہ کارروائیوں سے کافی حد تک کمزور کر دیا گیا تھا لیکن 2020 میں اس تنظیم نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا اور بڑے پیمانے میں افغانستان کے حساس مقامات اور شہریوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی طالبان پر پابندی کے حوالے سے گیارویں رپورٹ جسے سکیورٹی کونسل کے روبرو مئی 2020 میں پیش کیا گیا ،میں لکھا ہے کہ ‘‘ طالبان اور القاعدہ کے درمیان روابط بدستور قائم ہیں خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات میں بہت گرمجوشی پائی جاتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران طالبان القاعدہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے اور مشاورت کا عمل جاری رکھا۔ طالبان نے القاعدہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کے ساتھ تاریخی روابط کا ہمیشہ پاس رکھا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی لیے طالبان نے امریکہ کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جس میں القاعدہ سے تعلقات منقطع کرنے کی بات کی گئی ہو۔ صرف اسقدریقین دہانی ہے کہ جن علاقوں میں طالبان کی حکمرانی ہو گی وہاں سے امریکہ کے مفادات پرحملہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جو تنظیمیں افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں ان میں پیش پیش تحریک طالبان پاکستان بھی ہے۔ افغانستان اس وقت بھی حالت جنگ میں ہے۔ چونکہ طالبان موجودہ اشرف غنی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور افغانستان کی نیشنل فورس پر بھی ان کا اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے ان دونوں گروہوں کے درمیان لڑائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ طالبان کو جدال ختم کر کے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کی پاکستان اور امریکی کوشش بے ثمر ثابت ہو رہی ہے۔ طالبان کا مطالبہ ہے کہ ایسی کسی بھی کوشش کی کامیابی کا انحصار طالبان قیدیوں کی رہائی اور اقوام متحدہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے خاتمے پر ہے۔ طالبان تسلسل کے ساتھ ان دو مطالبات کی بات کر رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں امن کی ڈور کا ایک سرا اگر طالبان کے ہاتھ میں ہے تو دوسرے کو افغان حکومت تھامے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ دونوں اپنی گرفت اس ڈور پر ڈھیلی نہیں کرتے یہ ڈور تنی رہے گی اور اس پر چلنا مشکل ثابت ہوگا۔ افغان حکومت پاکستان پر برہم ہونے کی بجائے اگر اپنی توانائی طالبان کے ساتھ صلح جوئی اور ملک میں آئندہ پیدا ہونے والے معاشی مسائل کے حل پر مرکوز رکھے تو بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان سالانہ آٹھ ارب ڈالر کے عطیات پر چل رہا ہے جو جی ڈی پی کا چار فیصد بنتا ہے۔ امریکہ کے جانے کے بعد اس رقم کے بہاو کا کم ہونا یقینی ہے۔ افغانستاں کی موجودہ حکومت اور طالبان کے پاس اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا پلان ہے؟ یہ ہیں وہ نکات جن پر افغان امن عمل میں شامل سٹیک ہولڈرز کو بات کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ضد یہ رہی کہ طالبان کے بغیر افغانستان چاہیے تو پھرافغانستان کبھی بھی خارجی مداخلت سے بچ نہیں سکے گا۔ اشرف غنی اور دوسرے افغان لیڈروں کے پاس اپنی تقدیر لکھنے کا یہ سنہری موقع ہے۔