قرآنی موضوعات پر کام کی توفیق میسر آتی ہے تو اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت بھی مل جاتی ہے۔ ایک ایک لفظ اعجاز ۔ہر آیت معاملات کی گرہیں کھولتی۔ پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری نے ’’دی ہولی قرآن۔ ’’اے کانٹی نیوس میریکل‘‘ (قرآن۔ ایک اعجاز مسلسل)کے نام سے قرآن پاک کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ قرآن فہمی کے لئے انگریزی کو ذریعہ اظہار بنانے کا مقصد عالمی سطح پر قرآنی موضوعات کو پیش کرنا اور اردو سے ناواقف نسل نو کے لئے تفہیم کا اہتمام کرنا تھا۔کتاب کی مقصدیت طے ہونے کے بعد یقینا مصنف کے پیش نظر یہ امر بھی رہا ہو گا کہ قرآن کی ترتیب‘قرآنی موضوعات‘بعض آیات کی منسوخی اور قرآنی علوم کے حوالے سے تنقید کی ایک پوری تاریخ موجود ہے۔ جس طرح قرآن کو اللہ کا کلام ماننے والے صدیوں سے تفسیر اور تشریح پر کام کر رہے ہیں اسی طرح خدا کو نہ ماننے والے‘ رسول اللہؐ کے منکر اور الہامی کتب پر ایمان نہ رکھنے والوں نے سب سے زیادہ انگریزی میں کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک کی شرح انگریزی میں کرنے والا قرآن مخالف حلقوں کے اٹھائے نکتہ ہائے معترضہ کا جواب بھی دینے کی نادانستہ کوشش کرتا ہے۔اس کے سامنے اعتراضات کا کانچ بکھرا ہوتا ہے جس پر چل کر اسے اپنی منزل پر پہنچنا ہے۔ اگر کسی کو علامہ محمود آلوسی کی تصنیف ، بلوغ الارب ، پڑھنے کا موع ملا ہو تو اسے علم ہوگا کہ زبان دانی نے عرب سماج کے مزاج کی تشکیل میں کیا کردار ادا کیا ہے۔عرب کسی تلوار کے سامنے نہ جھکتے لیکن پر تاثیر کلام انہیں مغلوب بنا دیتا۔ باقی د نیا کو عجم(گونگا) سمجھنے والا اور زبان دانی میں مغرور عرب معاشرہ قرآن کی زبان اور لہجے کے سامنے عاجز آیا۔معروف معنوں میں وہ قرآن پر ایمان لے آئے۔ ہمارے قدیم ہندوستان میں سنسکرت بولی جاتی تھی۔مہا بھارت لکھی گئی تو اس زبان کئی کئی الفاظ روزمرہ کا حسہ بن گئے لیکن چونکہ سنسکرت کا ارتقائی سفر نسانی استعمال سے جڑا تھا لہٰذا یہ پروہتوں کے منتروں تک محدود رہ گئی۔ عام بول چول میں سنسکرت اردو کے جیسی ہو گئی جسے بھارت میں ہندی کہا جانے لگا ۔ہمیں اشوک کی ا لواح پڑھنے کے لئے ماہرین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ عربی زبان کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ قرآن نے پیش کیا۔ معجزہ یہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال میں لہجے الگ ہونے کے باوجود قرآن کی زبان عرب کی علمی لفظیات سے دور نہیں ہوئی۔ پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری فرانسیسی ماہر لسانیات رولینڈ بار تھے سے جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں‘ یہ وہی رولینڈ بار تھے ہے جس نے کہا تھا کہ ’’کتاب کی شکل مستقل ہے مگر موضوعاتی مواد میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے‘‘۔قرآن پاک نے جن تاریخی واقعات‘ مقامات اور شخصیات کا ذکر کیا وہ سب انسانی تاریخ کا حصہ ہیں‘ قرآن کا یہ بھی معجزہ ہے کہ اس کی لغت میں صدیوں بعد بھی مفہوم کے اعتبار سے تبدیلی نہیں آئی جبکہ دنیا کی تمام زبانیں بدلتی رہتی ہیں۔ چار سو سال پہلے اردو نہیں تھی آج اردو دو ارب افراد سمجھتے ہیں‘ جانے اگلے دو سو سال بعد ہماری نسلیں کون سی زبان بول رہی ہوں۔ ہم دنیا کی کسی بھی کتاب کو کسی بھی حالت میں چھو سکتے ہیں‘پڑھ سکتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ناپاکی کی حالت میں قرآن کو نہ چھوا جائے کیونکہ یہ جہانوں کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تو ہمیں ایک قاعدہ سمجھایا جا رہا ہے۔ گویا آداب کی وضاحت کر دی گئی کہ قرآن کے الفاظ ہی نہیں جس ورق پر قرآن کا خط ہو وہ بھی غیر معمولی عزت و احترام کا مستوجب ہو جاتا ہے۔ پھر قرآن کی تلاوت سے پہلے تعوذ پڑھنا ضروری قرار دیا گیا،شیطان کو مردود تسلیم کر کے اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگی جاتی ہے ۔ بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ قرآن سننے والوں کو بھی حکم دیدیا گیا کہ وہ غور سے تلاوت سنیں۔ یہ سب وہ مراحل ہیں جو ظاہری طہارت اور توجہ کی منزل تک پہنچاتے ہیں‘ قرآن پاک لسانی غرور کے شکار معترضین کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ قرآن کی کسی مختصر ترین سورہ جیسی تحریر پیش کر کے دکھائیں۔ نبی کریمؐ کو خدا تعالی نے صلاحیت عطا کر رکھی تھی کہ آپؐ جزیرہ نما عرب کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی عربی زبان کے لہجوں سے واقف تھے۔ آپ افصح ا لعرب تھے اور جوامع الکلم بھی،آپؐ جانتے تھے کہ بہت سے دیہاتی عرب لکھ اور پڑھ نہیں سکتے لہٰذا آپؐ ان کے سامنے ان کے لہجے میں قرآن کی تلاوت فرماتے۔ بدو اسی لہجے میں قرآن سیکھتے اور پھر اپنے آبائی علاقوں میں لوگوں کو سکھاتے۔ جس طرح پنجابی کے پوٹھوہاری‘ سرائیکی‘ ماجھا‘ ہتھاڑ‘ جانگلی‘پواد اور پچاد جیسے لہجے ہیں۔ قرآن پاک نے سماجی میل ملاپ کو بڑھانے اور انسانی رابطوں کو باہمی فائدے میں بدلنے کے لئے بڑی بنیادی باتیں تلقین کی ہیں‘ملاقات پر ایک دوسرے کو سلام کہنا‘ گفتگو میں لہجہ نرم رکھنا‘ دوسروں کو مخاطب کرنے کے آداب‘ حکمرانوں اور تاجروں کے لئے ضابطے اور رہنما اصول۔نظام انصاف‘ اہل خانہ کے ساتھ معاملات اور بچوں کو تعلیم دینے کے سلسلے میں قرآنی احکامات پر عمل کیا جائے تو ایک خاص ڈھب کا معاشرہ جنم لیتا ہے۔ قرآن پر مختلف اعتراضات اٹھانے والے پروفیسر اجناس گولڈزیہر، ولیم کلیرٹسڈال، جورج سیل، رچرڈ بیل، الفریڈ کیٹویل اسمتھ، تھیوڈور نولڈکے، سرہیملٹن الیگزنڈر روسکین گب، آرتھر جان آربری، جوزف شاخت، ریجس بلاشیر، ڈاکٹر اسپرنگر، ولیم منٹگمری واٹ، ایڈورڈ ونیز برف، سر ولیم میور، آرتھر جیفری، جان برٹن اور زمانہ حال میں ابن وراق جیسے مستشرقین نمایاں ہیں ۔،خوشی ہے کہ ڈاکٹر اکرم چودھری نے ان کے اعتراضات کا جواب دینے کا فرض کفایہ ادا کیا ۔ 334صفحات کی کتاب کا سرورق دلکش ہے۔ بزم اقبال لاہور کی شائع کردہ یہ کتاب ان افراد کی توجہ چاہتی ہے جو قرآن کی لسانیاتی‘ سماجی اور سائنسی جہتوں پر غور کرتے ہیں۔