نادرا سے شہریوں کا ڈیٹا چوری سکینڈل کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے 27لاکھ پاکستانیوں کا ڈیٹا چوری ہونے کی تصدیق کی ہے۔ نادرا کا شمار ملک کے ڈیجیٹل اداروں میں پہلے نمبر پر ہوتا ہے اور اس سے بھی مفر نہیں کہ نادرا کے قیام کے بعد شہریوں کو بڑے شہروں میں چوبیس گھنٹے شناختی کارڈ بنوانے اور دیگر سہولیات میسر آئی ہیں بلکہ دوسرے حکومتی ادارے بھی نادرا کے ڈیٹا بیس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ شہریوں کو بھی اپنی ہی معلومات میں ردوبدل کے لئے کٹھن اور ناقابل تردید شواہد پیش کرنا پڑتے ہیں تب تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نادرا کی خدمات یقینا قابل ستائش اور دیگر اداروں کے لئے قابل تقلید ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نادرا کا ریکارڈ ڈیجیٹل اور رسائی اعلیٰ عہدیداروں تک محدود ہونے کے باوجود نادرا ملازمین کی جانب سے ریکارڈ میں ردوبدل کی شکایات آ رہی ہیں جن میں افغان شہریوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کرنے میں نادرا کے اہلکاروں کا ملوث ہونا اہم ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس کے بعد ادارے کو کرپٹ عناصر سے پاک کیا جاتا مگر اب 27لاکھ شہریوں کے ڈیٹا چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے جو دبئی کے ذریعے رومانیہ میں فروخت ہوا جہاں سے پاکستان کی دشمن قوتوں کے ہاتھ لگنے کا اندیشہ ہے۔ بہتر ہو گا حکومت ڈیٹا چوری میں ملوث تمام اہلکاروں کو سیاسی اثرورسوخ کا لحاظ کیے بغیر قانون کے کٹہرے میں لائے تاکہ مستقبل میں کسی کو بھی حساس نوعیت کی قومی معلومات چوری کر کے بیچنے کی جرات نہ ہو۔