امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کے سی پیک اور ایم ایل ون کے بیان پر چینی سفارتخانے نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایلس ویلز کا بیان نیا نہیں ہے بلکہ نومبر 2019ء کی تقریر کا چربہ ہے۔ چینی سفیر نے کہا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات چاہتے تاہم پاک چین تعلقات میں مداخلت نہیں۔ پاک چین اقتصادی راہدی خطے میں معاشی تبدیلی لانے کا اہم منصوبہ ہے، جس کی تکمیل سے پاکستان میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونگے اور دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں گے‘ جس کے بعد نہ صرف پاکستان میں معاشی استحکام آئے گا بلکہ غربت کا بھی خاتمہ ہو گا۔ یہی بات امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کو پسند نہیں ہے۔ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل شروع سے ہی اس منصوبے کے خلاف گٹھ جوڑ کر کے سازشیں کر رہے ہیں۔ بھارت نے گوادر پورٹ کو ناکام بنانے کیلئے ایران سے چاہ بہار پورٹ حاصل کی۔ اس کے علاوہ بھارت افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کر کے پاکستان میں دہشت گردی اور لسانی فسادات کروا رہے ہیں۔ اس تناظر میں امریکی نائب وزیر خارجہ کا سی پیک پر تنقید کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ ایلس ویلز نومبر 2019ء میں بھی سی پیک پر تنقید کر چکی ہیں۔ ابتدا میں سی پیک کے مغربی روٹ کو متنازعہ بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ لیکن حقائق سامنے آنے کے بعد جب پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اس پر خاموشی اختیار کر لی تو اب امریکہ نے نیا طریقہ شروع کر دیا ہے۔ سی پیک کے تحت گزشتہ 5برس میں 32منصوبے مکمل ہوئے۔ جن میں 75ہزار نوکریاں فراہم کی گئیں۔ جی ڈی پی میں 2فیصد اضافہ ہوا۔ لاہور میں اورنج لائن اور میٹرو ٹرین سی پیک کا ہی حصہ ہیں جن سے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ سی پیک کے منصوبے کے تحت موٹر وے کا جال ملک بھر میں بچھ چکا ہے۔ جس پر روزانہ لاکھوں افراد سفر کر رہے ہیں ۔71برس میں امریکہ نے ایسا ایک بھی منصوبہ پاکستان میں تشکیل نہیں دیا جبکہ جب بھی امریکہ کو موقع ملا اس نے پاکستان پر پابندیاں عائد کیں۔ پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ روس کی افغانستان پریلغار کے بعد ہم نے امریکہ کے کہنے پر وہاں مجاہدین کی مدد کی۔ پھر نائن الیون کے بعد بھی طالبان کے خلاف امریکہ کے اتحادی بنے، اس کے بدلے آج تک امریکہ نے ہمیں کیا دیا؟ اب بھی امریکہ نے ہمارے کئی طرح کے فنڈز پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اگر پاکستان چین کی مدد سے خوشحالی کی جانب جانے لگا ہے تو امریکہ کو یہ بھی پسند نہیں۔ اس وقت پاکستان پر 110ارب ڈالر کا قرض ہے۔ جس میں زیادہ حصہ پیرس کلب اور آئی ایم ایف کا ہے۔ پاکستان پر سی پیک منصوبے کا صرف 5.8ارب ڈالر ہے جو پاکستان کے کل غیر ملکی قرض کا 5.3فیصد بنتا ہے۔ جس پر سود کی شرح 2فیصد ہے جبکہ اس کی واپسی بھی 20سے 25برس میں ہے۔2021ء سے چینی قرض کی واپسی شروع ہو گی جو سالانہ 30کروڑ ڈالر ہے جبکہ سی پیک کی تعمیر پر چین نے نہ تو غیر معقول مطالبات سامنے رکھے ہیں نہ کوئی نامناسب شرائط ہیں۔ اس لئے امریکہ جو خود ساختہ قرضوں کے حجم کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے ،وہ نامناسب ہے۔ چین نے مارچ 2020ء میں 17نئے منصوبے شروع کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے جن میں بلوچستان میں شمسی توانائی کے آلات کی فراہمی‘ خیبر پختونخواہ میں شمسی توانائی کے پمپس ‘ آزاد جموں و کشمیر میں واٹر فلٹریشن پلانٹس کے ذریعے صاف پانی کی فراہمی‘ طبی الات ‘ ووکیشنل سکولز کے لئے آلات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپ گریڈیشن کے منصوبے‘ زرعی تعاون کے شعبے میں استعداد کار میں اضافہ‘ زرعی مصنوعات کی پروسیسنگ اور ٹیکنالوجی میں توسیع شامل ہے۔ یہ ایسے منصوبے ہیں جن کی تکمیل کے بعد پاکستان میں معاشی طور پر کافی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ کیونکہ چین نے اس ٹیکنالوجی کی بدولت 80کروڑ افراد کو غربت سے نجات دلوائی ہے جبکہ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت چین کی جی ڈی پی 14کھرب ڈالر تک پہنچی ہے۔ بلوچستان‘ خیبر پی کے اور آزاد جموں و کشمیر میں جو منصوبے شروع ہونگے ان کی تکمیل سے وہاں کے لوگوں کی کافی حد تک پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ دوسری جانب امریکہ نے آج تک پاکستانی عوام کے لئے کوئی ایک منصوبہ بھی تشکیل نہیں دیا۔ درحقیقت امریکہ کی آج بھی یہی پالیسی ہے کہ وہ پاکستان کو اپنی غلامی میں جکڑے رکھے۔ دنیا کی سپر پاور ہونے کے باوجود امریکہ نے آج تک مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدگی نہیں دکھائی‘ حالانکہ اگر امریکہ چاہے تو یہ مسئلہ چند دنوں میں حل ہو سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا لیکن امریکہ کی طرف سے ملنے والی مدد مونگ پھلی کے دانے کے برابر تھی۔ جبکہ اس پر بھی طرح طرح کی شرائط لاگو تھیں۔ اس کے باوجود امریکی نائب وزیر خارجہ کا سی پیک منصوبے پر تنقید کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔اس وقت 25ہزار پاکستانی طلبا چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو چینی زبان سے واقف ہیں۔ سی پیک اتھارٹی ان افراد کو چینیوں کے ساتھ انٹرن شپس یاسٹڈی اسائنمنٹس کے طور پر تعینات کرے، اس سے نوجوان نسل کو بے پناہ فائدہ ہو گا‘ اس کے علاوہ چین سے زرعی شعبے میں مالی اور تکنیکی تعاون حاصل کیا جائے۔ جب تک ہم اپنے عوام کو پائوں پر کھڑا نہیں کرینگے تب تک ملک سے غربت کو ختم کرنا مشکل ہو گا۔ شعبہ زراعت میں تبدیلی آنے کے بعد ہمارے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقے کا معیار زندگی بہتر ہو گا۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی چھوٹے کسانوں تک پہنچنے سے پاکستان میں زرعی انقلاب آئے گا جس کے بعد خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ یہی بات امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کو کھٹک رہی ہے جس کے باعث وہ آئے روز اس عظیم منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔