ریبیزRabies) )کا نام شاید آپ میں سے بہتوں نے سنا ہوگا؟ یہ وہ خطرناک وائرس ہے جو باولا کتا انسان کوکانٹے کے دوران اس کے جسم میں منتقل کرتاہے ۔ اس وائرس کے خاتمے کا اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے تو متاثرہ شخص کے اعصابی نظام کو متاثرکرکے بائولے پن کا شکار کر دیتاہے ۔اس نوعیت کے مریضوں کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ اسے پانی سے ڈرنے Hydrophobia) ) کا مرض لاحق ہوجاتاہے، یعنی پانی کودیکھتے ہی اسے خوف محسوس ہونے لگتاہے۔ میں جب بھی مغربی ممالک میں اسلام کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت،باربار قرآن کریم کی بے حرمتی اورنبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخانہ واقعات رونما ہوتے دیکھتاہوں تو مجھے بائولا کتا، ریبیز اور آب ترسیدگی جیسے الفاظ یاد آجاتے ہیں۔ کوئی اگر پوچھے کہ اسلام فوبیا اور ریبیز کے بیچ کیا تعلق ہے تو اسے آج سے انیس بیس برس پیچھے جانا چاہیے ۔ نائن الیون ڈرامے کے بعد مسلم ملکوں میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے ، اسلام کو بلیک میل کرنے اور ہرمسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی خاطر امریکہ اور اس کے حواریوں نے وار آن ٹیرر کے نام سے ایک جنگ شروع کی۔ اس جنگ میں ان ملکوں نے بڑے عیارانہ طریقوں سے دہشت گرد تنظیمیں بنائیں اور ان تنظیموں کے عسکریت پسندوں کومسلم ملکوں میں خودکش دھماکے، ٹارگٹ کلنگ جیسے انسان دشمن ٹاسک بھی سونپادیا ۔ اب ایک طرف اپنی پیداکردہ دہشتگرد تنظیموں کی کاروائیوں کے نتیجے میں مغرب نے مسلم دنیا میں اپنے مذکورہ بالا اہداف حاصل کیے اوردوسری طرف وہاں پر اسلام قبول کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی شرح کوقابوکرنے کیلئے اپنے شہریوں کے سامنے اسلام کی ایک مہیب تصویرپیش کی جا رہی ہے ۔ اس حساب سے دیکھاجائے تومغرب کے لوگ اب بائولے ہوگئے ہیں اور انہیں’’ ٹھنڈے پانی جیسے پُرامن دین اسلام‘‘ سے بھی خوف محسوس ہوتاہے ۔ اب امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا، ناروے ، ڈنمارک ، سویڈن ، فرانس اور دیگر یورپی ملکوں میں اس خوف کی وجہ سے قرآن کریم ، نبی اکرم ﷺ کی ذات ، مسجدوں اور پرامن مسلمان شہریوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے سولہ نومبرکوایسے ہی بائولے پن کا ایک بھیانک واقعہ یورپ کے جنوب مغربی ملک ناروے میں پیش آیا۔سٹاپ اسلامائزیشن ان ناروے‘‘ (SIAN) نامی تنظیم کے ملعون سربراہ نے ناروے کے شہر کرسٹین سنڈمیں ایک مظاہرے کے دوران قرآن مجید کوآگ لگادی۔ عمرالیاس نامی نوجوان مسلمان (جوبعدمیں اس گستاخ پر حملہ آور ہوئے )کے بیان کے مطابق ’’ مظاہرے کے دوران سیان رہنما آرنے تیمر نے پہلے شان رسالتؐ میں ہرزہ سرائی کی ۔پھر اس نے اسلام کو ایک متشدد مذہب کہہ کر اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔جب مظاہرہ اختتام کے قریب پہنچاتوآرنے نے قرآن کا ایک نسخہ نکالا۔ہمیں یقین تھا کہ اگر وہ قرآن کوآگ لگانے کی کوشش کرے گا توساتھ کھڑی پولیس اسے روک لے گی کیونکہ پولیس نے بڑی وضاحت کے ساتھ ہمیں آرنے کوقرآن جلانے سے روکنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔الیاس کے مطابق جونہی اس ملعون نے قرآن کوآگ لگائی اورسات سیکنڈتک جلتارہاتو میں اس پرجھپٹ پڑا۔ پہلے ہاتھ سے اس کو مارا اور پھر اسے لات ماردی۔ الیاس کا کہناہے کہ پولیس نے نوسیکنڈبعدمداخلت کی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آرنے کو پولیس کی خاموش حمایت حاصل تھی‘‘۔آرنے تیمر کے ہاتھوں قرآن مجید کی یہ بے حرمتی محض ایک اتفاقی اور جزوی واقعہ نہیں بلکہ یہ بات اب ہرکسی پر عیاں ہوگئی کہ اسلام دشمنی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے لبادے میں مستور مغرب کی باقاعدہ طور پر ایک پالیسی بن چکی ہے۔ ناروے کاشمار یورپ کے انتہائی ترقی یافتہ اورقانون پسند ملکوں میں ہوتاہے ۔ تریپن لاکھ آبادی رکھنے والے اس ملک میں قانون کی اتنی سختی سے پاسداری کی جاتی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ سوال اب یہ پیداہوتاہے کہ کیا ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب کی برسربازار توہین کرنے والے شخص کی اس حرکت سے نارویجن حکام واقعی لاعلم تھے ؟جہاں ریاستی قانون غلط پارکنگ کرنے پر بھی فوری طورپر حرکت میں آتاہے وہاں ایسے مکروہ جرم کے ارتکاب پر قانون کا مکمل خاموش رہنا کیامعنی رکھتاہے؟یورپ اور امریکہ کے کسی نہ کسی شہر میں ہرپانچ چھ مہینے بعدقرآن کریم اور پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کے ایسے واقعات کا پیش آنا مغربی ممالک کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کی بین دلیل ہے۔صرف بلجیئم میں گزشتہ سال کے دوران مسلمان مرد اور خواتین پر دفتروں، پارکوں اور مارکیٹوں میں ایسے حملوں کے ستر سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ۔جرمنی ہو یافرانس ، آسٹریا ہو یاامریکہ وبرطانیہ ، فن لینڈ ہو یا بلغاریہ اور دوسرے مغربی ممالک ، سب میں اسلام فوبیا ایک فیشن یابیماری کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔مسلمان اور اسلام دشمنی کے ایسے دلخراش واقعات سے نمٹنے کیلئے اب مظاہروں اور احتجاجی جلوسوں سے بات نہیں بننے والی ، بلکہ اس نوعیت کے حساس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانا ناگزیرہوچکاہے ۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیراعظم عمران کی تقریر اسلام فوبیا کے خلاف اٹھنے والی چند آوازوں میں سے ایک تھی جہاں انہوں نے برملاطور پر مغربی حکمرانوں کو آئینہ دکھایا۔ وزیراعظم عمران خان نے اسی موقع پر اپنے ترک اور ملائشین ہم منصبوںرجب طیب اردوان اور مہاتیر محمد کیساتھ بھی میٹنگ کی جس میںان تینوں نے اسلام فوبیا کوکاونٹر کرنے کیلئے باقاعدہ طورپرایک انگریزی ٹی وی چینل لانچ کرنے کا عندیہ دیا۔خداکرے کہ مسلم دنیا کے یہ سربراہان اپنے اس نیک مقصد میں کامیاب ہوں۔کاش مسلم دنیا کے باقی حکمران بھی زبانی مذمتوںکی بجائے آئندہ کیلئے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے لیں۔ستاون کے لگ بھگ مسلم ملکوں کے رہنما اگرباہمی اتفاق سے مغرب کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھائیں تو مجھے یقین ہے کہ اس کے بہت مثبت نتائج نکلیں گے ، ورنہ ہر دوسرے تیسرے دن ہمارے دل اور احساسات اسی طرح گھائل ہوتے رہیں گے۔