کنج دل تباہ میں کیا ہے بچا ہوا اک نقش پائے یا رہے حیرت بنا ہوا سچ مچ نفس زدہ ہے چراغ مزاردل کچھ کچھ جلاہواہے توکچھ کچھ بچا ہوا میں ایسے شعروں سے آپ کو یکسر اداس ا نہیں کرنا چاہتا کہ کہیں آپ بھی اپنے روزہائے رفتگاں میں نہ کھو جائیں۔ بہرحال اپنے جھانکتا تو ہر شخص اور پھر مغموم بھی ہوتا ہے۔ بس کچھ ایسا ہی میرا ارادہ تھا کہ گردن جھکا کر تصور یار بھی دیکھی جائے اور زخم ہائے ہجر و محرومی کا حال کھولا جائے مگر کیا کریں یک دم اخبار آئے تو ایک اخبار کی سرخی پر نظر پڑ گئی تو میرا موڈ یکسر بدل گیا۔ سارا رومانی ملال اور میر تقی میر جیسا حزن و خمار بھی دھرے کا دھرا رہ گیا کہ میرا گمان ہے کہ خبر غلطی سے بن گئی ہو گی مگر نہیں ایسا نہیں ہے۔ اس سرخی کو دیکھ کر کئی شریف المزاج کے لوگ لال پیلے ہوئے ہونگے۔ سرخی تھی نامرد بنانے کا فیصلہ بارہا جرم سے مشروط۔ میرا نہیں خیال کہ مندرجہ بالا سرخی میں کوئی ابہام ہو۔ اس کا سیدھا سادا مطلب وہی ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں کہ دو چار مرتبہ کی خیر ہے کہ جذبہ شوق میں کوئی حد سے گزر سکتا ہے اور حکمت اس میں یہ تلاش کی ہو گی کہ بندے کو عادی نہیں ہونا چاہیے۔بس اس کا خیال کرنا چاہیے کہ بری عادت نہ پڑ جائے۔ اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ کہ اس نامرد بنانے کے عمل کی تفتیش کے لئے کمشنر ڈی سی کی سربراہی میں ریپ سیلز قائم کئے جائیں گے۔ وقعہ کی فوری ایف آئی آر درج ہو گی اور مقدمات کا ان کیمرہ ٹرائل ہو گا اور یہ تونہیں ہو سکتا کہ اس میں وکیل کرنے کی اجازت نہ ہو۔ ایسے ہی فیض صاحب کا شعر یاد آ گیا: بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ مجرم کو سزا دینے کے لئے ہو رہا ہے یا حوصلہ افزائی کے لئے۔ اصل میں ہمیں ان سزائوں کی طرف نہیں آنا چاہیے جو قرآن میں تجویز نہیں کی گئی ہیں اور ہمیں وحشیوں میں شمار نہ کرنے لگ جائیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ زنا کی سزا اسلام میں موجود ہے کہ شادی شدہ یہ حرکت کرے تو اسے سنگسار کر دیا جائے جسے رجم کرنا کہتے ہیں۔ غیر شادی شدہ کے لئے سو کوڑے ہیں مگر یہ تو ظلم دکھائی دیتا ہے۔اگر ہم نے دو چار چوروں کے ہاتھ کاٹے ہوتے تو یہ سیاست کا ہنگامہ بھی نہ ہوتا اور آٹے اور چینی کا مسئلہ بھی کہاں ہوتا۔ ہم برائی کو جڑ سے ختم کرنے کے حق میں نہیں بلکہ ہمارے انداز فکر و عمل سے برائی خوب پھیلتی پھولتی ہے کہ اس پر کئی لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اب ذرا اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہیں کہ حکومت آخر چاہتی کیا ہے۔ ڈاکٹر ناصر قریشی نے مجھے بتایا کہ اس نامردی کے پراسس کے لئے castrationکا لفظ ہی استعمال ہوا ہے جس کا مقصد مجرم کو ناکارہ بنانا ہے کہ وہ افزائش کے قابل نہ رہے ۔ واقعتاً کاسٹریشن کا عمل کوئی فطری بات نہیں لگتی۔ آپ اس عمل کے نتائج پر ذرا نظر ڈال لیں کہ ایسا سزایافتہ شخص جو افزائش نسل سے محروم ہو یا پھر ایک قدم آگے کہ وہ عملی طور پر اپاہج کر دیا جائے تو وہ کیا کرے گا۔ اس کا ردعمل کچھ بھی ہو سکتا ہے اس کااپنا کردار معاشرے میں کیا رہ جائے گا۔ اس کی نااسودہ خواہشات اسے کہاں نچلا بیٹھنے دیں گی۔ بہرحال ایسا شخص صحت مند سوچ نہیں رکھ سکتا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔ جہاں مقدمہ ‘ تفتیش اور ایسے معاملات آ جائیں تو پھر فیصلہ خدا جانے۔ ہم تو ایسے معاملات کے سدباب کے لئے یعنی اس کی روک تھام کے لئے ان اسباب پر بھی بات نہیں کر سکتے جو ایسی زیادتیوں کا موجب بنتے ہیں۔ بات یوں ہے کہ جس کے پاس زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں ہو گا وہ کیا کرے گا؟ اس کے سب ہجر وصال اور خواب و خیال ختم ہو جائیں گے۔ یہ محاورہ یونہی نہیں بن گیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نت نئے شگوفے چھوڑنابند کر دے۔ آخر خاں صاحب روز روز کوئی نیا شوشہ کیوں چھوڑتے ہیں جب اس بدکاری کی سزا موجود ے تو پھر یہ اپنے پاس سے اختراع کیوں؟ اب اس پر یقینا انجمن خواجہ سرا نے خوشی اور اطمینان کیا اظہار کیا ہو گا کہ چلو کوئی تو قانون ایسا پاس ہو رہا ہے جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ خواجہ سرائوں کو ہو گا۔ وہ تو ایسے مردانگی سے عاری لوگوں کو خوش آمدید کہیں گے یا کم از کم ایک گونہ اطمینان محسوس کریں گے کہ صرف وہی ایسے نہیں۔ کچھ کسبی بھی ہیں۔ اس قانون کے حوالے سے بہت سوں کو تشویش ہو گی کہ اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے خاص طور پر سیاست میں تو کچھ بھی ممکن ہے کہ انتقاماً کسی پر الزام لگ جائے اور وہ سزا سے بے شک بچ جائے مگر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس معاملے میں مریں گے بے چارے جاہل اور غریب ہی اور پھر پولیس کی چاندی ہو جائے گی۔ اشرافیہ کو تو کوئی ہاتھ ڈال ہی نہیں سکتا۔ اشرافیہ کی ایک عورت سے موٹر وے پر زیادتی ہوئی تو اس خاتون کا کسی کو علم تک نہ ہوا جبکہ عام خاتون اور لڑکی اس کے بعد جینے کے قابل نہیں رہتی۔بات کسی اور طرف نکل جائے گی۔ ایسے واقعات کو روکنے میں سب کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے۔ یہ کوئی جواب نہیں کہ کیا عورتیں گھر بیٹھ جائیں؟۔سب مضحکہ خیز ہے۔ آخر میں کومل جوئیہ کے دوشعر: مکاں کا ذکر ضروری نہیں مکیں کے ساتھ کہ جیسے سانپ کلیثے ہے آستیں کے ساتھ مرے خلوص کو گالی بناکے رکھ دے گا یہ تیرا نرم رویہ منافقیں کے ساتھ