سردارِ مکہ وہب بن عبدمناف بن زہرہ کے ہمراہ، یمن کے سفر میں ، اپنے شاہی میزبان کے پاس قیام پذیر تھے ، اتنے میں ایک عمر رسیدہ یہودی عالم جو قیافہ شناسی میں بھی مہارت رکھتا تھا، آپ کی شخصی وجاہت اور رعب سے متاثر ہو ا اورآپ کے ا عضائے جسمانی ۔۔۔بطور خاص نتھنوں کا مطالعہ کر نے کی اجازت چاہی ۔ یہ جان کر کہ حضرت عبدالمطلب قریشی سردار اوربنو ہاشم کی جلیل القدر ہستی ہیں ،آپ کے ناک کے ایک بال کا تجزیہ کرکے ، کہنے لگا ’’اری نبوۃ وملکا والا ہما فی المنافین‘‘۔’’ یعنی مجھے تو اس میں نبوت وبادشاہت یکجا دکھائی دے رہی ہے‘‘۔ اس نے مزید کہا کہ یہ نبوّت وبادشاہت دو منافوں یعنی عبد مناف بن قصی جو حضرت عبداللہ کے جدِّ اعلیٰ اور عبد مناف بن زہرہ جو حضرت آمنہ کے جدِّ اعلیٰ تھے ، کے ملاپ ، یعنی بنوہاشم اور بنو زہرہ کے فرزندوں کے ’’ قِرانَ ا لسَّعدین‘‘ کے نتیجے میں ہوگی ۔ کاہن (Soothsayer) اور عرّاف(Diviner) قدیم عرب کے دو معتبر شعبے تھے جو غیب دانی ، پیش گوئی ، رمل ، جوتش ،نجوم ، فال اور پیشین گوئی میں مہارت رکھتے تھے ۔ تاج العروس اور بلوغ الارب کے مطابق ان میں معمولی فرق تھا، کاہن مستقبل کا حال بتاتا اور عرّاف ماضی کا ۔ابن خلدون نے اپنے معرکہ الاراء تاریخ کے مقدمہ، میں ان شعبوںکے تذکرے میں جزیرہ نمائے عرب سے شق بن انمار اور سطیح بن مازن ،جو اس وقت اس فن کے امام تھے ، کا ذکرکرتے ہوئے ،نبی اکرم ﷺ کی بعثت ، ان کے غلبے ،کسریٰ کی سلطنت کی تباہی اور نور نبوت کی سارے عالم میں روشنی کے حوالے سے ،ان کی پشین گوئیوں کاذکر کیا ہے۔حضرت عبدالمطلب بڑے زیرک ،دانا ،صاحب بصیرت اور قائدانہ اوصاف سے متصف تھے ،وہ مکہ کے علاوہ یثرب اور خیبر کے یہودی احبار اور نصرانی راہبوں سے نبی منتظر کی باتیں سنتے آرہے تھے اور اس امر پر بھی پختہ یقین پاچکے تھے کہ اس شرف کا مستحق بیت اللہ کے جوار میں بسنے والی اولادِ اسمعیل ؑ سے بڑھ کر اور کوئی نہ ہوگا ،مگر یمن کے اس یہودی عالم کی یہ بات قدرے منفرد تھی، جس نے بنو زہرہ اوربنو ہاشم کے اتصال کے ساتھ اس شرف کو نتھی کردیا ،چنانچہ دس جوان بیٹوں کے عطا ہونے کی مراد بَر آنے اوراس پر اپنی نذر پوری کرنے کے بعد،حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹے عبداللہ کو ساتھ لیکر بنو زُہرہ کے آنگن میں اُترتے ہیں ،سیّدہ آمنہ سلام اللہ علیہا کے والد گرامی حضرت وہب انتقال فرما چکے ہیں۔بنو زہرہ کے سردار وہب اور وہیب کے ساتھ حضرت عبدالمطلب کے دیرینہ خاندانی مراسم تھے ، وہب تو یمن کے مذکورہ سفر میں بھی جناب عبدالمطلب کے ساتھ تھے ، اس گھر کی جواں سال اور خوش خصال حضرت آمنہؓ بنت وہب کے ساتھ ہالہ بنت وہیب بھی پاکیزگی اور طہارت کامجسمہ تھی ۔ حضرت آمنہؓ کی والدہ بِرَہ ۔۔۔ بیٹی سے شفقت بھرے لہجے میں مخاطب ہوکر بتاتی ہیں کہ ’’بنوہاشم کے سردار تجھے اپنے بیٹے عبداللہ کے لیے مانگنے آئے ہیں ‘‘۔کائنات کی بلند بخت ماں بننے والی آمنہ ؓ نے خود سپردگی کے عالم میں اپنا سر ماں کی گود میں رکھ دیا، حضرت آمنہؓ کا نکاح حضرت عبداللہ ؓسے ہوگیا،اور اگلے ہی چند لمحوں میں آلِ زہرہ کی خواتین سیّدہ آمنہ کو ،یکے بعد دیگرے مبارکباد کے ہدیے پیش کرنے لگیں ۔حضرت عبداللہ ؓ حُسن وجمال کے پیکر اور شرافت ونجابت کا مجسمہ تھے اور پھر جس فرد کے لیے دس نہیں ،بیس نہیں ۔۔۔پورے سو اونٹ فدیے میں ذبح ہوئے ، انسان تو انسان جانور بھی اس سے متلذذ ہوئے ،ایسے وجیہہ ، وقیع اور خوبصورت نوجوان کے لیے مکے کی گلیوں سے مختلف دروازوں کا وَا ہونا کوئی اچبنھے کی بات نہ تھیں، عیسائی عالم ورقہ بن نوفل کی بہن جو خود قیافہ شناسی ،رمل ، نجوم میں ماہر اور آسمانی کتابوں کی عالمہ تھی۔۔۔آپ کی راہ میں آنکھیں بجھا کر کہا کرتی تھی: اے میرے چچیرے بھائی ! بخدا ۔ میں مستقبل کے پردوں میں ایک امید افزا واقعہ دیکھ رہی ہوں۔ عرب کا دستور تھا کہ شادی کے ابتدائی تین دن دلہا اپنے سسرال یعنی دلہن کے گھررہتا ۔حضرت عبداللہؓچوتھے دن اپنی زوجہ کے استقبال کے لیے اپنے گھر کی طر ف آرہے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی راہ میں آنکھیں بچھانے اوران کے قرب کی تمناکرنے والیوں نے چہرے پھیر لیے ہیں۔قتالہ بنت نوفل نے کہا تیری پیشانی میںجو نور ضوفشاں تھا وہ آج غائب ہوگیا ہے ۔طبری اور ابن اثیرنے فاطمہ بنت مُر کا بھی اسی ذیل میں ذکر کیا ہے ۔اس صورتحال پر عرب کی دیگر کئی خواتین کے کہے ہوئے اشعار تاریخ عرب میں محفوظ ہیں ،جن کا مدعا ،بقول حفیظ جالندھری یہ تھا : وہ جس کے نور سے تیری چمکتی تھی یہ پیشانی اُسی کی تھی میں طالب اور اُسی کی تھی میں دیوانی شادی کے بعد،یہ نو بیا ہتا جوڑا کتنے دن اکٹھے رہا۔۔۔؟ مورخین کے نزدیک تقریباً دس دن بعد ایک تجارتی قافلہ غزہ اور شام کی طرف جارہا تھا ۔ حضرت عبداللہؓ کو بھی اس تجارتی قافلے کے ساتھ جانا تھا ، سو وہ چلے گئے ۔ غالب گمان یہی ہے کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی سے سیّدہ آمنہ کی رحم میں منتقل ہونے والا نورہی ان دونوں کے لیے مُسرتوں اور خوشیاں کا سامان بنا ہوگا۔حضرت عبداللہ کی مسافت کا دورانیہ طویل ہوگیا۔ انتظار کی گھڑیاں لمبی ہوگئی ۔ حضرت عبداللہ اپنی بیماری کی طوالت کے سبب یثرب اپنے ننھیال، یعنی اپنے والد حضرت عبدالمطلب کے سُسرال میں رُک گئے ۔ کچھ دنوں کے بعد حارث بن عبدالمطلب جو آپ کے پیچھے آپ کی خبر گیری کے لیے گئے ، ان کی وفات کی خبر کے ساتھ اکیلے ہی واپس آگئے ۔ سیّدہ آمنہؓ کا سہاگ اُجڑ گیا ۔تسلی کے الفاظ کھوکھلے ہوگئے ،عروسی جوڑا جوجناب عبداللہؓ کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔۔۔ سوگ میں ڈوب گیا۔ مبارکباد یں ۔۔۔۔ نوحوں میں بدل گئیں ، اٹھارہ سال کی عمر کا دولہا اس وقت دنیا سے رخصت ہوگیا جب ابھی ان کی دلہن کے ہاتھوں کی حنائی رنگت بھی ماند نہ ہوئی تھی ۔سیّدہ آمنہ ؓنے اس موقع پر جو مرثیہ کہا پتھر بھی اس سے پگل گئے ،آپ نے کہا : ’’بطحا کی سرزمیں ۔۔۔ ہاشمی خاندان (کے بطلِ جلیل) کی زیب وزینت سے محروم ہوگئی ۔ ہاشم کے گھر کی زینت۔۔۔ دنیا کے ہنگاموں سے دو ر لحد میں سوگیا۔۔۔ وہ بڑے ہی سخی اور لوگوں پر رحم کرنے والے تھے ‘‘۔ وقت گزرتا گیا ، رحم مادر میں جناب عبداللہ کی امانت ، وضع حمل تک پہنچ گئی ۔حسرت اور یاس کی طویل رات اختتام کو پہنچی ،واقعہ فیل کے تھوڑے عرصہ بعد ولادت باسعادت کی خوشیاں پھیل گئی۔ عرش وجد کُناں اور جنت اترانے لگی ۔آپؓ کو اس اُمّت کے سردار کی ماں بننے کا مژدہ سنائی دینے لگا۔ دکھ درد ختم ہوئے ،نور یقین سے سیّدہ آمنہؓ کا چہرہ تمتما اُٹھا۔ حفیظ جالندھری کے بقول: ؎ سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سبحانی سلام اے فخرِ موجودات فخرِ نوع انسانی