کورونا کو ایک منٹ کے لئے بھول جائیے حالانکہ یہ بھولنے کی چیز ہے نہیں۔ یہ اس زمانے کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ تاہم میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ چوبیس سال پرانی بات تھی کہ نجیب ہارون تشریف لائے اور یہ اطلاع دی کہ وہ اور ڈاکٹر عارف علوی تحریک انصاف میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں وہ دوستوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔ اسی خاطر وہ میرے پاس تشریف لائے تھے میری رائے جاننا چاہتے تھے۔ میں کہیں لکھ چکا ہوں کہ اگر میں بھی سیاست کے میدان میں اترنا چاہتا تو شاید تیسرا نام میرا ہوتا۔ سچ پوچھئے کہ تحریک انصاف جب بن رہی تھی تو اس وقت ملک ایک عجیب ذہنی اور نفسیاتی کشمکش سے گزر رہا تھا۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی ملک کے لئے کئی طرح سے اہم تھی۔ ضیاء الحق کا زمانہ گزر چکا تھا۔ برلن کی دیوار گر چکی تھی۔ اس ملک کا سارا لیفٹ منہ چھپائے پھر رہا تھا۔ روس ان کا ایک طرح سے واحد سہارا تھا۔ چین کا معاملہ دوسرا تھا۔ ملک میں جمہوریت کا ایک ایسا دور آیا تھا جب سیاسی جماعتوں کے درمیان میوزیکل چیئر کا کھیل جاری تھا۔ بھٹو کٹر لیفٹ کے آئیڈیل نہ تھے۔ مگر انہیں بھٹو کی صورت میں ایک بہت بڑا سہارا مل گیا تھا۔ ضیاء الحق کی رخصتی اور جمہوریت کی بحالی کے بعد قائد عوام کا بت بنا سنوار کر بھرپور پوجا کے لئے لگا دیا گیا تھا۔ دوسری طرف دایاں بازو آئی جے آئی کی اوٹ میں اپنی طاقت مجتمع کر رہا تھا۔ باریاں لگی ہوئی تھیں۔ دائیں بازو کو نظریاتی طور پر اس وقت دھکا لگا جب جماعت اسلامی آئی جے آئی سے الگ ہو گئی۔ پھر اس نے اسلامک فرنٹ بنا کر ایک الگ تجربہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا ووٹر تو مسلم لیگ میں چلا گیا اور نظریاتی حامی بیچ میدان میں اس طرح کھڑے رہ گئے کہ ان کو کوئی راستہ نہیں ملتا تھا۔ اس طرح ایک تیسرا طبقہ پیدا ہو رہا تھا جو اپنے اپنے دھڑے سے تو بیزار تھا‘ مگر انہیں تیسرا آپشن ملتا نہ تھا۔ ایک عجیب کشمکش کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں خاص کر دائیں بازو کے کارکن یا زیادہ وضاحت کروں تو دائیں بازو کے لبرل مایوس ہو رہے تھے۔ انہیں راستہ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف ابھر کر سامنے آ رہی تھی اور نجیب ہارون‘ عارف علوی جیسے سیاسی کارکن سوچ رہے تھے کہ یہ ایک صاف ستھری قیادت سامنے آ رہی ہے جو کسی طور بھی شدت پسند نہیں اور نہ ان میں لیفٹ کا کٹر مولویانہ پن ہے اور نہ ان کے نظریات میں دین اور پاکستان کے لئے کوئی کد ہے کیوں نا ابتدا ہی میں اس کے ساتھ مل کر اس کا حصہ لیا جائے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا جائے۔ اس کے بعد عمران خان جب بھی کراچی آئے۔ ان سے ملاقات یا نجیب کے گھر ہوتی یا عارف علوی کے ہاں۔ میں کہا کرتا ہوں‘ ان دنوں کراچی میں تحریک انصاف بس یہی تھی یا اس میں آدھا فردوس شمیم نقوی تھے۔یہ تیسرا نام میں اس لئے شامل کرتا ہوں کہ ایک بار میں نے ان کے گھر پر کھانا کھایا تھا جو انہوں نے ہارون الرشید کے اعزاز میں دیا تھا۔ بڑا شاندار کھانا‘ مگر اس میں شاید ہمیں دوچار لوگ تھے۔ یوں سمجھیے یہ لوگ کئی خواب آنکھوں میں لئے اور ذہنوں میں خوبصورت آدرش سجائے اس پارٹی میں آئے تھے۔ عارف علوی پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنا دیے گئے تو ایک تسلی ہوئی کہ کچھ صاف ستھرے لوگ آگے آ رہے ہیں۔ اگرچہ بعد میں ایسا بھی ہوا کہ جو روایتی سیاست کے قائل ہیں وہ اس انتخاب کو غیر سیاسی سمجھتے تھے۔ وہ بہرحال اس وقت تک چلتے رہے جب بالآخر جہانگیر ترین نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔ نجیب ہارون کے بارے میں معلوم ہوتا رہا کہ وہ پارٹی میں فعال بھی ہیں اور قدرے مطمئن بھی۔ حتیٰ کہ انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا اور انہوں نے یہ الیکشن جیت لیا۔ نجیب ہارون ایک صاف ستھرے کاروباری آدمی تھے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ انجینئر ہیں۔ باہر سے پڑھ کر آئے ہیں۔ انہوں نے واپس آ کر اپنی کنسٹرکشن کمپنی بنائی اور کاروبار کے کچھ اصول طے کئے جو اس شعبے میں کام کرنے کے لئے بڑے مشکل تھے۔ مثلاً انہوں نے آغاز ایسے کیا کہ کوئی سرکاری ٹھیکہ لیتے ہی نہ تھے۔ بڑے بڑے نجی اداروں کا کام لیتے اور معیاری انداز میں انجام دینے میں شہرت کمائی۔ ایک آدھ ذاتی پراجیکٹ بھی دوستوں کے لئے شروع کر دیتے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوںکہ زندگی میں پہلی بار جب میں ایک اپارٹمنٹ کا مالک بنا تو وہ نجیب ہارون نے بنایا تھا۔ میری تو اتنی بساط بھی نہ تھی‘ مگر نجیب نے جب طرح حوصلہ دلایا‘ وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ جب بن گیا تو دیکھا کرتے اور مارے خوشی کے چلا اٹھے‘ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ یہ اتنا اچھا بن گیا تھا۔ ہمارے اور بہت سے دوست انہی کی حوصلہ افزائی سے صاحب جائیداد بنے۔ دوسری طرف ہمارے دوستوں میں اور بھی یہ کام کرتے تھے۔ بعض تو ایسے تھے کہ ان کے ہتھے چڑھ گئے ہوتے تو اب تک رو رہے ہوتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہوا کیا۔ اتنا جانتا ہوں کہ بہت دنوں سے نجیب ہارون کا کہیں تذکرہ نہ آرہا تھا۔ پارٹی نے جب پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ بنایا تو مجھے یقین تھا کہ نجیب کو ضرور کوئی کردار دیا جائے گا حالانکہ پارٹی میں اس شعبے کے لوگوں کی کمی نہ تھی۔ علیم خاں سے لے کر انیل مسرت تک کئی نام تھے۔ لگتا ہے نجیب سے کبھی مشاورت ہی نہیں کی گئی۔ دیانت دار آدمی جو تھے ‘کراچی کے معاملات میں جانے یہ فیصل ووڈا‘ یہ علی زیدی جیسے لوگ کہاں سے آ گئے۔ یہ ریلے کا ریلا کہاں سے کود پڑا۔ ان کی تو وہ عادات ہی نہ تھیں جن کے لئے یہ پارٹی معرض وجود میں آتی تھی۔ ہاں ایک بات اور کہتا چلوں۔ ایک زمانہ آتا ہے جب نئے لوگوں کے پرے کے پرے سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے لئے فضائوں میں تیر رہے ہوتے ہیں۔ دیدہ ور ان پر نگاہ جمائے ہوتے ہیں کہ دیکھیں یہ کدھر جاتے ہیں۔ یہ جدھر جائیں گے۔ ادھر جیت کے امکان پیدا ہو جائیں گے۔ اس لئے نہیں کہ وہ ۔Electableہوں گے‘ بلکہ اس لئے کہ ان سے ہوا کا رخ معلوم ہو گا اور یہ بھی خیال پیدا ہو گا کہ اچھے لوگوں کی یہی جگہ ہے ان دنوں اسد عمر اور جہانگیر ترین اسی زمرے میں آئے تھے۔ کبھی سنتے وہ مسلم لیگ ن میں جا سکتے ہیں ‘ کبھی معلوم ہوتا کہ عبوری سیٹ اپ میں نہ آنا ہوا تو پھر عمران خاں کی طرف جائیں گے۔ اسد عمر سے میری دلچسپی ان کے والد جنرل غلام عمر کی وجہ سے تھی جن سے میری نیاز مندی تھی۔ جہانگیر ترین کی شہرت بھی ان دنوں صاف ستھرے کاروبار کی تھی۔ مختصر یہ کہ میں پارٹی کو دیکھتا رہا۔ اس سے مایوس بھی ہوتا رہا۔ مگر اس سے امیدیں بھی باندھتا رہا۔ یہ سفر جاری رہا۔ اب جی یہ خبر آئی ہے کہ نجیب ہارون نے استعفیٰ دے دیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ دو سال سے مجھے کسی مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پارٹی سے مایوس ہونے والے ان نظریاتی کارکنوں میں کتنا صبر و تحمل تھا۔ چند ماہ پہلے میں نے پوچھا عارف علوی سے رابطہ ہے۔ کہنے لگے رہتا ہے۔ اسی فون نمبر پر پیغام دے دیتا ہوں بات ہو جاتی ہے۔ یہاں تک پہنچ کر مجھے کچھ نہیں کہنا۔ میں صرف اس سوچ میں ہوں کہ پارٹی میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ جو لوگ آج نمایاں ہیں‘ کل وہ کہاں تھے اور کل کے بنیادی رکن اب اتنے رنجیدہ کیوں ہیں۔ سنا ہے کہ نجیب ہارون کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا اسے منانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے اس کا کوئی سیاسی مادی یا دنیاداری کا مطالبہ نہیں ہو گا۔ بس وہ تو یہ چاہتا ہو گا کہ پارٹی جو کچھ کرے سوچ سمجھ کر کرے اور اس سوچ سمجھنے کے عمل میں ان جیسے بنیادی ارکان سے بھی پوچھ لیا کرے۔ انشاء اللہ سب کا بھلا ہو گا۔