عید میلاد النبیؐ… پیغمبرؐ بزرگ و برتر نے اپنے ماننے والوں کو قدم قدم پہ قرآنِ حکیم سے رہنمائی حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ آپ ﷺ کی اپنی حیاتِ مبارکہ اسی فرقانِ مجید کا عملی عکس ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ساری زندگی سنی سنائی باتوں، مشرکانہ رسوم اور خلاف دین فرقہ بازی پر توآنکھیں بند کرکے ایمان لے آئیں گے لیکن دینِ مبین کی سب سے بنیادی اکائی یعنی قرآن کے احکام کی سراسر خلاف ورزی کرتے چلے جائیں گے۔ اوّل تو ہم قرآن پڑھنا ہی ترک کر چکے ہیں، مدت سے یہ کام ہم نے پیٹ پوجا کی مزدوری کرنے والے روایتی ملاؤں یا مدرسے کے نابالغ بچوں کے سپرد کر رکھا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا پہ اشتہار دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ ثواب پیسوں کے عوض خریدیے اور اس کی رسید بھی حاصل کیجیے۔ لاحول ولا قوۃ… اور اگرکچھ لوگ پڑھتے بھی ہیں تو محض زبانی رٹہ لگانے یا ثواب کے نقطہ نظر سے محض قرأت کرنے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ کبھی ان آیات کا مفہوم سمجھنے یا اپنے اعمال کا جائزہ لینے کے لیے قرآنی ارشادات پہ غور نہیں کرتے، جن میں دینی و دنیاوی کامیابیوں کے سرچشمے جاری ہیں۔ یاد رہے اپنی اصل سے دور ہونا ہی ہمارے زوال کا سب سے بڑا سبب ہے۔ صفی لکھنوی کا شعر ہے: مرکزی قوت سے جب ہٹتے گئے جس قدر بڑھتے گئے، گھٹتے گئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کائنات کی سب سے معتبر کتاب کو محض چومنے یا رنگا رنگ غلافوں میں بند کرکے اونچے اونچے طاقچوں پہ رکھنے، اس پہ ہاتھ رکھ کے قسمیں اٹھانے یا بغیر سمجھے پڑھے چلے جانا قرآن کا احترام نہیں توہین ہے۔ ہم دنیا کے جاہلوں کی طرف سے قرآن کی ظاہری توہین کا تو بہت برا مناتے ہیں لیکن اپنی اس عملی اور مستقل نظر اندازی نیز خدائی احکام کو پسِ پشت ڈالنے پہ نادم بھی نہیں ہوتے۔ یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہوگی جب ہم کسی ہستی یا منبع رشد و ہدایت کے احترام کا دعویٰ تو کرتے جائیں لیکن اس کی باتوں کو سمجھنے یا ان پر عمل کرنے میں ہٹ دھرمی کا دائمی مظاہرہ کرتے چلے جائیں۔ ذرا ایسے لوگوںکے لیے اللہ اس کے رسولؐ اور قرآن کا فیصلہ بھی سن لیجیے: ’’اس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی اور وہ منکرین کے لیے بڑ ا سخت دن ہوگا۔ ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا: کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس کے بہکاوے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی۔ شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا۔ اور رسولؐ فرمائیںگے: اے میرے رب! میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو محض مذاق سمجھ لیا تھا۔‘‘ (الفرقان: ۲۶۔ ۳۰) محترم و مکرم رسولﷺ کی حیات طیبہ پر ایک سرسری سی نظر ڈالنے سے بھی بہ خوبی علم ہو جاتا ہے کہ آپﷺکی پوری زندگی اخلاقیات اور احترامِ آدمیت کا درس دینے اور اس کے عملی اظہار میں بسر ہوئی۔ آج دنیا بھر کی نظروں میں ہماری جگہ اخلاقیات کی آخری صف میں بھی نہیں بنتی۔ ہم صادق اور امین سے شہرت حاصل کرنے والے نبیؐ کی اُمت ہیں لیکن جھوٹ اور خیانت ہماری نس نس میں سرایت کر چکی ہے، جس کا خمیازہ بھی عرصے سے بھگت رہے ہیں۔ یہ نکتہ ہمارے ذہن پہ لگاتار دستک دیتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہب اور سنت نبویﷺ کو اختیار کرنے کے معاملے میں بھی احترامِ رسول ﷺ سے زیادہ ذاتی پسند ناپسند یا مالی و معاشرتی مفادات کو دخل ہے۔ ہمیں حلوہ کھانے والی سنت تو یاد ہے، پیٹ پر پتھر باندھنے والی نہیں۔ ہمیں داڑھی رکھنے والی سنت تو ازبر ہے، کسی کا دل رکھنے والی نہیں۔ ہم حج پر جاتے ہوئے اپنی کمائی کی نوعیت پر غور نہیں کرتے، بلکہ ’’حاجی صاحب‘‘ بن جانے کے بعد ملنے والے مفادات پہ آنکھ رکھتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی میں طریقہ رسولﷺ کو اپنانے کی بجائے اپنے فرقے کے مولوی کی تاکید کو اپنا دھرم سمجھتے ہیں۔ افطاری کرواتے ہوئے شرعی ثواب اتنا ذہن میں نہیں ہوتا، جتنا دولت سے مرعوب کرنے کا خیال جاگزیں ہوتا ہے۔ بڑے بڑے سرکاری آفیسرز، ناظمین اور ممبران اسمبلی کی قومی خزانے سے کرائی جانے والی افطاریوں کو تو باقاعدہ مزاحیہ پروگرموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے بیشتر علما کے ہاں دینی اجتماعات میں تبلیغِ دین پیش نظر کم ہوتی ہے اور اپنی شعلہ بیانی کی دھاک بٹھانے کا خیال زیادہ دل میں ہوتا ہے۔ ہم اپنی جہالت کے بل بوتے پر جو محبت دنیا کی سب سے عظیم ہستیﷺ پر نچھاور کر رہے ہیں اگر اسی انداز محبت کا مظاہرہ ہم اپنے والد محترم کے سامنے کریں تو وہ شام سے پہلے ہمیں گھر سے نکال دیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ گلیوں میں لوگوں سے جبری چندہ اکٹھا کرنے، رات کو ڈیک پہ گانے چلانے، سرعام بھنگڑا ڈالنے، بے ہنگم آوازوں میں نعرے لگانے اور جلسوں میں فلمی طرز کی نعتیںپڑھنے کو آپ عقیدت کے کون سے درجے میں رکھیں گے؟ سورہ مطففین میں زندگی کے معاملات میں جھوٹ بولنے اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے متعلق واضح ارشاد ہے کہ: ’’اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں، ہر گز نہیں، بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے، صرف اتنا نہیں یقینا یہ اس روز اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جائیں گے۔ پھر یہ جہنم میں جاپڑیں گے۔‘‘ (المطففین: ۱۳۔ ۱۶) آپ خود ہی غور کریں کہ جس نبیؐ کو برملا معلمِ کائنات اور علم کا شہر قرار دیا گیا ہے، وہ ہماری جہالت کو کس طرح برداشت کریں گے؟ پھرجس آدمی کے ظاہر اور باطن میں تضاد ہے، ان کی تو شفاعت سے بھی نبی ﷺ کومنع فرما دیا گیا ہے۔ دوستو! ہم نے تو مدینہ سے یہی سیکھا ہے کہ زمین پہ بچھی قوم کو رشکِ آسماں بنا دینے والی اس ہستیؐ کی زندگی کا بغور مطالعہ کریں اور اس پہ دل و جان سے عمل پیرا ہو جائیں، اسی میں دائمی کامیابی ہے۔