میرے لئے یہ بہت حیران کن تجربہ تھا، جس کی خوشگوار یاد آج بھی مجھے ایک ایسے ماحول میں لے جاتی ہے جس میں پاکستان کا قبائلی معاشرہ جس پر ابھی انگریز کے نافذ کئے گئے اینگلو سیکسن قانون کا اثر نہیں ہوا تھا وہ کیسی پُر سکون اور پُر امن زندگی گزار رہا تھا۔ پشتون اور بلوچ قبائلی رسم و رواج اکثر اسلامی تعزیرات کے تابع ہیں۔ اسی لئے مجھے اپنے اس تجربے کی معاشرتی افادیت کا آج تک احساس ہے۔ میری سول سروس کی نوکری کی پہلی پوسٹنگ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، پشین تھی۔ اس حیثیت سے میں قتل کے مقدمات کے لئے قائم جرگے کا سربراہ تھا۔ روزانہ کئی مقدمات میں ملزم پیش ہوتے اور گواہیاں دی جاتیں۔ مقدمات کے دوران قاتل کے خاندان والے مقتول کے ورثاء سے اسلامی قانونِ دیت کے تحت صلح صفائی کی کوشش بھی کرتے رہتے۔ اگر معاملہ طے پا جاتا تو پھر ایک بہت بڑی تقریب منعقد ہوتی جسے ’’ننوات‘‘ کہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ تقریب مقتول کے ورثاء کے گھر کے صحن میں منعقد ہوئی۔ عشاء کے بعد صحن میں مقتول کا قبیلہ فرشی نشست پر گائو تکیے لگا کر بیٹھا تھا۔ جرگہ کے سربراہ کی حیثیت سے مجھے اور جرگہ ممبران کو ایک اہم مقام پر بٹھایا گیا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد قاتل کے ورثاء اپنے قبیلے اور قاتل کے ہمراہ صحن میں داخل ہوئے اور سامنے قطار در قطار ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ پشین اور چمن کے علاقوں میں چشتی خاندان کے بزرگوں کو بڑی عزت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے۔’’ننوات‘‘ کے اس قافلے کی قیادت چشتی خاندان کے بزرگ ہی کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر قرآنِ کریم میں قصاص و دیت اور عفو و درگزر کی وہ مشترکہ آیات تلاوت کیں اور اس کے بعد اسلام میں معافی، عفو و درگزر کی اہمیت پر تھوڑی سی گفتگو کی۔ اس کے بعد قاتل کا باپ آگے بڑھا اور دست بستہ کھڑے ہو کر اس نے انتہائی رقت آمیز لہجے میں اپنے بیٹے کے جرم کا اعتراف کیا اور انتہائی عجزوانکساری سے بھر پور پشتو زبان میں معافی طلب کی۔ اس دوران قاتل سرجھکائے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ دونوں کے ساتھ ایک فرد کپڑے سے ڈھکے ایک بڑے سے تھال کو اُٹھائے ہوئے تھا جس میں خون بہا کی رقم اور ایک پستول تھا۔ قاتل کے باپ نے درخواست کی کہ اگر تم چاہو تو قتل کے بدلے میں قتل کر دو یا خون بہا کی رقم لے کر اسے معاف کر دو۔ تھال مقتول کے باپ کے سامنے لایا گیا، پوری محفل پر سنّاٹا چھا گیا۔ اس نے تھال میں موجود رقم میں سے کچھ اُٹھائی اور پھر تھال پر کپڑا ڈال کر واپس کر دیا۔ پوری محفل میں مبارک سلامت کا غلغلہ اُٹھا اور دونوں خاندان اور قبیلے آپس میں گلے ملنے لگے۔ اس کے بعد قاتل قبیلے کو ساتھ بیٹھنے اور کھانا کھانے کی اجازت ملی۔ یہ واقعہ کوئی قرونِ وسطیٰ یا ابتدائے اسلام کا نہیں، بلکہ صرف 36 سال قبل جولائی 1986ء کا ہے۔ اس حیران کن تجربے کے بعد میں نے جب اسلام کے اس نظام عفو و درگزر اور نظام قصاص کی روشنی میں بلوچستان کی قبائلی زندگی کا مطالعہ شروع کیا تو لاتعداد ایسے واقعات مجھے ملے جو یقیناً کسی صالح اور امن خُو معاشرے کا خاصہ ہو سکتے ہیں۔ کانسی کوئٹہ کا سب سے بڑا پشتون قبیلہ ہے۔ اس کے ایک خوبرو نوجوان صادق کانسی کو بلوچ جمالی قبیلے کے ایک نوجوان نے قتل کر دیا۔ کانسی قبیلے کے بزرگ میت دفنانے کے بعد ابھی فاتحہ پر بیٹھے ہی تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ جمالی قبیلے کے لوگ اسلام اور قبائلی روایات کے مطابق ان کے ہاں آنے کے لئے روانہ ہو چکے ہیں۔ بلوچی میں اسے ’’میڑھ‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے ہی مقتول کے والد کو یہ اطلاع ملی کہ ’’میڑھ‘‘ روانہ ہو گیا ہے تو اس نے وہیں فاتحہ پر بیٹھے ہوئے اعلان کیا کہ میں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کر دیا ہے۔ اسلام کے اصولِ دیت و قصاص کے تابع اس قبائلی معاشرے کا کمال یہ تھا کہ صدیاں گزر جاتیں اور قصاص پر عمل نہ ہوتا۔ ایک تصور عام تھا کہ دُشمنی کو یہیں دفن کر دیا جائے۔ قاتل و مقتول دونوں گھرانوں میں اس کے بعد ایسی رشتے داریاں پیدا ہوتیں کہ اس کی مثالیں دی جاتیں۔ لیکن برصغیر کے اینگلو سیکسن قوانین کو جب ’آرڈیننس 2 آف 1968ء کے تحت بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں بھی نافذ کیا گیا تو اس کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے، لیکن سپریم کورٹ نے 1992ء میں پورے ملک میں ایک ہی طرح کے قانون کے نفاذ کا فیصلہ دیتے ہوئے جب جرگہ لاء ختم کر دیا تو اس سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا کہ جس کے بعد ایک قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ’’میں تمہیں عدالت میں دیکھ لوں گا‘‘ کا ایسا نعرہ بلند ہوا جس میں وکلائ، جھوٹے گواہ، ایک کے بدلے لاتعداد قاتلوں کی نامزدگیاں اور آخر میں دہشت گردی کی دفعات کو بھی شامل کر کے پورے معاشرے میں ’’انصاف‘‘ نہیں بلکہ ’’انتقام‘‘ کی ایک ایسی ریت ڈالی گئی جس نے آج تک پورے نظامِ انصاف کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جرگہ کی اسلامی روایت میں جھوٹا گواہ نہیں ہوتا تھا۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کون ہے، کوئی جھوٹی گواہی دینے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ لیکن اینگلو سیکسن قانون میں تو مقدمات کی اکثریت، جھوٹی ایف آئی آر، جھوٹے گواہ اور وکیل کے تراشے ہوئے ایک جھوٹے افسانوی واقعے پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو اس نظام کی بھول بھلیوں سے تنگ آ جاتا ہے وہ کمرۂ عدالت میں ہی قاتل کو قتل کر دیتا ہے۔ اینگلو سیکسن نظام عدل اور مغربی طرزِ معاشرت کی خرابی یہ ہے کہ اس میں تمام عدالتیں ’’قانون کی عدالتیں‘‘ ہیں جنہیں "Courts of Law" کہا جاتا ہے یہ عدالتیں ہرگز انصاف کی عدالتیں "Courts of Justice" نہیں ہیں۔ آئین کے مطابق پاکستان میں ’’مکمل انصاف فراہم‘‘ (Complete Justice) کرنے کا اختیار آرٹیکل 187 کے تحت صرف اور صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ قانون کی عدالت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر اسمبلی کے چار سو اراکین کوئی ایسا قانون بناتے ہیں جو انصاف کے تقاضوں سے بظاہر ہم آہنگ نہیں تو تمام عدالتیں اس پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ لیکن چونکہ سپریم کورٹ آخری عدالت ہے اس لئے اسے ایک محدود سا اختیار دیا گیا ہے کہ اگر مروجہ قوانین کے تحت انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے ہیں تو وہ اس کے برعکس فیصلہ سنا سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کے متعصب سیاسی جمہوری نظام کا کمال یہ ہے کہ جب کبھی بھی سپریم کورٹ نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اسے طعن و تشنع کا ’’تختۂ مشق‘‘ بنا لیا گیا۔ پانامہ کیس اس کی بہترین مثال ہے۔ اسی طرح جب ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کا حکم دینے کے جرم میں پھانسی دی گئی تو اس فیصلے کو ہمیشہ انصاف کے تحت نہیں بلکہ مروّجہ قوانین کے تحت متنازعہ بنایا گیا۔ انصاف کا تقاضہ تو یہی تھا کہ جس نے قتل کا حکم دیا ہے اسے ہی سزا دی جائے، ورنہ پولیس والوں کی تو احمد رضا قصوری کے ساتھ کوئی ذاتی دُشمنی نہیں تھی کہ وہ اسے بار بار قتل کرنے کی کوشش کرتے اور آخر کار اس کے باپ کو قتل کر دیتے۔ مروّجہ قانون بھٹو کو اعانتِ جرم کا مجرم ٹھہراتا تھا جبکہ انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ اسے اصل مجرم گردانا جائے۔ اسی لئے عدالت نے فیصلے میں باقاعدہ یہ الفاظ استعمال کئے کہ ’’حکومت دراصل کسی بدمعاش کے ڈیرے میں تبدیل ہو چکی تھی جہاں سے ذاتی دُشمنی اور مخاصمت کی بنیاد پر حکومتی کارندوں کو قتل کے لئے بھیجا جاتا تھا‘‘۔ (جاری ہے)