پاکپتن شہر کے علاقہ گلشن فرید کالونی میں ایک ستر سالہ بزرگ غلام رسول رہتے ہیں۔ یہ چالیس سال قبل وطن عزیز سے دور سمندر پار روزی روٹی کمانے گئے تاکہ اپنی اولاد کا مستقبل سنوارسکیں۔ غلام رسول اچھے ڈرائیور تھے اس لئے یہ لوگوں کی گاڑیاں چلاتے رہے۔ گاڑیاں چلاتے وقت جب وہ ہاتھ گاڑی پہ رکھتے تو دل میں یہی اْمنگ جاگ اْٹھتی کہ کاش وہ اپنے بیٹوں کے لئے بھی ایسی گاڑی خرید سکیں۔ غلام رسول نے وطن سے باہر رہ کر پیسے کمائے، اِتنے پیسے کمائے کہ پاکپتن میں اپنے دو بیٹوں کے لئے شاندار گھر تعمیر کرایا اور اپنے بڑے بیٹے فہد رسول کو گاڑی لے کر دی۔ گھر کے علاوہ غلام رسول نے چار کنال زمین بھی بنالی۔ وطن واپسی پر غلام رسول نے ساری جائیداد اپنے بیٹوں کے نام کردی، گاڑی، گھر سبھی کچھ اپنے بیٹوں کو دے دیا سوائے اْس چار کنال زمین کے تاکہ وہ زمین اْن کے بڑھاپے کا سہارا بنی رہے۔ والد کی کی جانب سے کیے گئے سبھی احسانات کوایک طرف رکھتے ہوئے چالیس سالہ بیٹے فہد رسول نے آئے روز والد سے چار کنال زمین اپنے نام کرانے کی ضد پکڑلی۔ والد نے بڑی محبت اور پیار سے سمجھایا کہ بیٹا جو کچھ انہوں نے محنت مزدوری سے کمایا تھا وہ پہلے ہی ان کے نام کرچکے ہیں۔ اب یہ چند مرلے زمین تو اپنے باپ کے نام رہنے دیں۔ جس پر فہد رسول شدید طیش میں آ گیا۔اور اپنے چچیرے بھائی طیب کے ہمراہ اسلحہ لے کر والد کے سامنے کھڑا ہوگیا اور اپنے سگے والد کو گالیاں دینے لگا۔ ستر سالہ بزرگ منت سماجت کرکے سمجھانے لگا کہ بیٹا والدین کے لئے ایسی زبان استعمال کرنا انتہائی نامناسب ہے۔ جس پر فہد رسول نے شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے بزرگ والد کو تھپڑ ماردیا۔ غلام رسول تو شاید پہلے تھپڑ کے بعد ہی اندر سے مرگیا ہوگا مگر نافرمان بیٹے نے والد کے چہرے سمیت جسم کے دوسرے حصوں پر جوتے مارنے شروع کردیے۔ بدترین تشدد کی وجہ سے غلام رسول گیراج میں فرش پر گرگیا مگر نافرمان بیٹے کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا بلکہ اْس نے جوتے اتار کر والد کو مارنا شروع کردیا۔ ستر سالہ بزرگ و ناتواں باپ زمین پر روتا رہا، گڑگڑاتا رہا، اپنے بیٹے سے معافیاں مانگتا رہا،بیٹے کو اللہ کا واسطہ دیتا رہا۔ مگر لالچ کے نشے میںمست نافرمان بیٹے کو اپنے بزرگ اور لاچار والد کی چیخ و پکار سنائی نہ دی۔نافرمان بیٹے کی آنکھوں میں صرف خون سوار تھا۔ اْسے نہ خوفِ خدا رہا، نہ معاشرتی اقدار ۔ وہ باپ کی عظمت، ایثار، جدوجہد،باپ کی قربانیاں،باپ کی شفقت اور باپ کا پیار سب کچھ بھولگیا۔وہ اپنے والد کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا۔وہ کہتا رہا اگر یہ چار کینال زمین اْس کے نام نہ کی تو وہ انہیں قتل کردے گا اور نعش نہر میں بہا دے گا۔ نافرمان بیٹے کے دماغ پر صرف چار کینال زمین کا بھوت سوار تھا۔ اِس دوران غلام رسول کا چھوٹا بیٹا اپنے والد کو چھڑانے آیا تو نافرمان بیٹے نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔اِس دوران اہل ِ محلہ اکٹھے ہوگئے اور بڑی منت سماجت کے بعد اس کے ہاتھوں والد کو چھڑایا۔ملزم فہد رسول اور کزن طیب والد کے گھر سے جاتے ہوئے طلائی زیوارات اور دوسری قیمتی چیزیں بھی ساتھ لے گئے۔ غلام رسول کا چھوٹا بیٹا دروازے کے پیچھے چھپ کر اپنے والد پر تشدد کی ساری کارروائی کی ویڈیو بناتا رہا۔ چند روز بعد اْس نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ اگرچہ اِس واقعہ کی باقاعدہ اطلاع پولیس کو نہ دی گئی مگر جونہی ویڈیو سوشل میڈیا اور بعد ازاں مین سٹریم میڈیا پہ وائرل ہوئی تو تھانہ فرید نگر کی پولیس حرکت میں آگئی۔ ضلعی پولیس افسر کیپٹن (ر) طارق ولایت ساہیوال سے پاکپتن گامزن تھے جب اْنہیں یہ اطلاع دی گئی۔ساہیوال سے وہ سیدھا بزرگ شہری غلام رسول کے گھر پہنچے،وہ بزرگ شہری کے گلے لگ کر رودیے۔غلام رسول بھی ڈی پی او کے گلے لگ کر روپڑے۔ فرید نگر پولیس نے بزرگ شہری کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ بعد از گرفتاری پولیس نے ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تو عدالت نے بھی دونوں ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ تاحال معلومات کے مطابق مقامی پولیس نے دوران تفتیش دونوں ملزمان سے تشدد کے دوران استعمال ہونے والا اسلحہ اور زبردستی اٹھائے گئے زیورات اور نقدی رقم بھی برآمد کر لیے ہیں۔ دونوں ملزمان جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں جن کو بعد از جسمانی ریمانڈ عدالت میں پیش کر کے حوالات جوڈیشل بھجوایا جائے گا۔ضلعی پولیس افسر طارق ولایت نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یہ انتہائی شرمناک فعل ہے۔ اس افسوس ناک واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس میں ملوث ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے گی تاکہ آئندہ والدین پر تشدد کرنے کی کسی میں جرات پیدا نہ ہو سکے۔ والدین جیسی عظیم ہستیوں پر تشدد کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ جس پر تشدد کے شکار بزرگ غلام رسول نے ڈی پی او پاکپتن اور پاکپتن پولیس کو ڈھیروں دعائیں دیں۔اسلام نے جہاں جنت ماں کے قدموں کے نیچے رکھی ہے وہیں والد کی آہ اور خدا کی شنوائی میں کوئی پردہ نہیں رکھا۔ ہمارے مذہب میں تو والدین کے سامنے اونچا بولنے سے منع کیا گیا ہے۔ انسان تو درکنار اسلام میں تو جانوروں کے ساتھ حسن ِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے مگر ہم مسلمان تو ایک طرف شاید ہم انسان کہلوانے کے لائق نہیں رہے۔ کسی شاعر نے ہمارے لئے ہی کہا ہوگا کہ: ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں آغاز سے انجام تک کل ملا کر یہی واقعہ ہے۔ مگر یہ واقعہ محض ایک نافرمان بیٹے کا اپنے والد پہ تشدد کا نہیں ہے۔ اس میں کئی عناصر شامل ہیں۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرتی نظام کے منہ پہ سیاہ چادر تھوڑی سی اپنی جگہ سے ہٹی ہے تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں والدین کس کرب میں زندگی گزا ر رہے ہیں۔ مذہبی فریضہ تو اپنی جگہ رہا ہم نے والدین کو بوجھ سمجھنا شروع کردیا ہے۔ جنہوں نے ہمیں لاڈ پیار سے بڑا کیا اورہماری انگلی پکڑ کر بڑے فخر سے گلی محلے میں گھوما کرتے تھے کہ ہم اْن کی اولاد ہیں۔ اب ہمیں اپنے اندر جھانکنا چاہیے کہ کیا ہم اولاد کہلانے کا حق کھو نہیں چکے؟