’’یہ کتاب کا نہیں بلکہ خطاب کا دور ہے‘‘ اگر دختر مشرق بینظیر بھٹو اپنے ایک مشیر کی بات پارٹی پرچم کے پلو سے باندھ کر نہ چلتی تو اس دن قومی اسمبلی میں ان کے صاحب زادے ایسی بات نہ کرتے، جس بات کی کبھی بینظیر بھٹو کو شکایت ہوا کرتی تھی۔ پاکستان کی قومی اسمبلی تو وہی ہے مگر اب کردار بدل گئے ہیں۔ کردار بدلنے سے افکار بدل گئے ہیں۔اگر پیپلز پارٹی آج بھی اپنی پرانی فکر پر قائم رہتی تو بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم عمران خان سے مخاطب ہوکر یہ نہ کہتے کہ انہیں آئی ایس آئی سے کہہ کر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی فون کو ٹیپ کروانا چاہئے۔ کیا ایک سابق صدراور خاص طور پر سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بیٹے کو آن دی فلور ایسی بات کرنا زیب دیتی تھی، جو جمہوریت کی بات کرنے والی پارٹی کے رہنما کو آف دی رکارڈ بھی نہیں کرنی چاہئیے۔ اگر یہ بات بلاول نے بی بی سی یا میڈیا کے کسی اور ادارے سے انٹرویو کے دوران کی ہوتی تو پیپلز پارٹی کی تھنک ٹینک فوری طور پر ایسے بیان کی تردید کرتی اور کہتی کہ ان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ اب اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کیا کہے؟ کیوں کہ بلاول نے یہ بات اسمبلی کے فلور پر کہی اور پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کو اتنی ہمت بھی نہیں ہوئی کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کے اس مطالبے کے حروف کو ریکارڈ سے حدف کیا جائے۔ اس وقت تو سیاسی منظر پر خاموشی تیر رہی ہے مگر تاریخ کبھی خاموش نہیں رہتی۔ تاریخ اپنا اظہار مخصوص وقت پر کرتی ہے اور تاریخ کی زبان کو روکنے کی طاقت کسی میں نہیں۔ تاریخ جب بھی درست سمجھے گی تب اپنا اظہار کرے گی اور تاریخ کے اس اظہار میں کس قدر تلخی ہوگی؟بلاول کا مطالبہ ایک بیان نہیں سیاست کے زوال کا ایسا ثبوت ہے، جس کو کوئی نہیں جھٹلا پائے گا۔ اس وقت تو تاریخ ایک تماشہ بنی ہوئی ہے۔ مگر تاریخ اپنے تماشے کا انتقام ضرور لے گی۔ کیوں کہ تاریخ نہ بھولتی ہے اور نہ معاف کرتی ہے۔ تاریخ کا ترازو جب توازن میں آئے گا، تب یہ بات بھی سامنے آئے گی، کہ کس نے کیا کہا تھا اور کیوں کہا تھا؟ اپنے حقیر سے مفاد کے لیے کیا ایسی بات کرنا درست تھی، جس کی نہ تو کوئی قانونی بنیادہے اور نہ سیاسی اخلاق اس کی اجازت دیتا ہے۔ جب بھی ہمارے سیاسی اسٹیج پر اس قسم کے تماشے ہوتے ہیں، تب اس ملک کے لکھے پڑھے افراد کو انگریز شاعر ٹی ایس ایلیٹ کی شہرہ آفاق نظم کھوکھلے لوگ (Hallow Men) یاد آجاتی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہماری سیاست پر کھوکھلے لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ کھوکھلے لوگوں کی باتیں بھی کھوکھلی ہوتی ہیں اور ان کے کردار بھی کھوکھلے ہوتے ہیں۔ سیاست صرف لوگوں کا وہ ہجوم نہیں ہوتی جس کا نہ کوئی دل ہوتا ہے اور نہ دماغ ہوتا ہے۔ سیاست صرف نعروں کے شور کا نام نہیں۔ بینظیر بھٹو نے جب کہا تھا کہ Shouting is better than shooting تو اس کا مطلب کچھ اور تھا۔ بینظیر بھٹو کی بات تو اب بھی درست ہے۔ اگر شور وغل اور گولیاں چلنے اور چلانے کا موازنہ کیا جائے تو ظاہر کہ ہم شور و غل کے حق میں رائے دینگے۔ مگر جب سیاست کومحض شور بنایا جائے اور بھی ایسا کہ اس شور اور چیخ و پکار کے تلے ہماری اخلاقی اقدار دب جائیں تو پھر ہم اس شور سے زیادہ اہمیت اس خاموشی کو دینگے،جوخاموشی ہمارے جمہوری افکار کا تحفظ کرتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے اب تک خاموشی کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ سیاست کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اگر تمہارے پاس کہنے کے لیے کوئی بہتر بات نہیں ہے تو اپنا منہ بند رکھنا سیکھو۔ جب سیاست تماشہ بن جائے تو اپنا منہ بند رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔اس بات کومدنظر رکھ کر تاریخ کے بڑے لوگ زیادہ تر خاموش رہتے تھے۔ اس طرح جس طرح مرزا غالب خاموش رہا کرتے تھے اور جب ان کے دوست اور احباب انہیں ملکی حالات کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کہنے کے سلسلے میں ضد کیا کرتے تھے تب مرزا مسکرا کر اپنا یہ شعر گنگناتے تھے: ’’بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے‘‘ مرزا غالب جیسے عظیم لوگ جانتے ہیں کہ جب سیاست اور اقتدار کی باگ ڈور بچوں کے ہاتھوں میں آجائے توپھر تماشے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔ جب چار اور تماشہ ہو تو پھر چپ کے علاوہ کرنے کو اور کچھ نہیں رہتا۔ مرزا غالب کے حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ انہیں فارسی زبان کی یہ کہاوت بہت پسند تھی کہ عقل کا عمر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے ہم کسی سیاسی رہنماکی عمر کا تذکرہ نہیں کر رہے۔ ہم تو صرف اس عقل کی بات کر رہے ہیں جو ہماری ملکی سیاست میں وقت کے ساتھ اتنی کم ہوگی ہے کہ اسمبلی کے فلور پر ایسے مطالبات سن رہے ہیں جس کا ہم نے کبھی تصور تک نہیں کیا تھا۔ بلاول نے جو بات کہی ہے ایسی بات آج تک کسی نے نہیں کی۔ آج تک ملک کے حساس اداروں کے حوالے سے جو بھی بات ہوئی ہے وہ یہ ہوئی ہے کہ اداروں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئیے۔ بلاول نے ملکی سیاست کی تاریخ میں سب سے الٹی بات کی ہے۔ بلاول کی اس بات پر جو مباحثے ہو رہے ہیں، ان کو سن کر تاریخ کے حوالے سے ایک مشہور مباحثہ یاد آ رہا ہے۔ روس میں انقلاب سے قبل یہ مباحثہ ہوا تھا کہ ’’تاریخ ہیروز کو بناتی ہے یا ہیروز تاریخ کو تراشتے ہیں؟‘‘ یہ سوال جب ابھر کر روس کے دانشور سیاستدان کے سامنے آیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے لیے یہ بہت مشکل سوال ہے۔ میں اس کا جواب نہیں دے سکتا کہ تاریخ ہیروز کو تخلیق کرتی ہے یا ہیروز تاریخ کو بناتے ہیں مگر میں یہ بات مکمل عقل اور اعتماد کے ساتھ کر سکتا ہوں کہ نقلی ہیروز تاریخ کا ستیاناس کردیتے ہیں‘‘ ہماری ملکی سیاست میں بہت بڑے عرصے سے ہیروز جنم نہیں لیتے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم تاریخ کا بحران بھرنے کے لیے نقلی ہیروز کو بنانے میں لگ جائیں۔ جب اصلی ہیروز کی جگہ نقلی ہیروز لائے جاتے ہیں تو پھرایسی باتیں میڈیا کی زینت بنتی ہیں،جیسی بات بلاول بھٹو زرداری نے کی۔ بلاول کی یہ بات اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ سیاست ان کے مزاج میں نہیں ہے۔ ان کی بہت ساری باتوںسے صاف نظر آتا ہے کہ سیاست ان کا انتخاب نہیں۔ سیاست ان پر مسلط کی گئی ہے۔ بلاول کے ناقدین کو ہمیشہ ان پر غصہ نہیں آتا۔ ان کو اکثر ان پر ترس میں آتا ہے کہ اس کو کیسی دنیا میں دھکیل دیا گیا ہے! یہ دنیا ان کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ اگر یہ دنیا ان کو پسند ہوتی تو وہ اب تک اس میں رس بس جاتے۔ وہ سیاست کرنا نہیں چاہتے۔ اس لیے وہ سیاست کرنانہیں جانتے۔اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی وہ ایسی باتیں کر جاتے ہیں جن کو سن کر محسوس ہوتا ہے کہ سیاست کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔اگر ان کو سیاست میں گھسیٹنا پیپلز پارٹی کی مجبوری ہے تو اس کو ان پرچیوں سے محروم نہ کیا جائے؛ جو پڑھ کر وہ کم از کم ایسی باتیں تو نہیں کیا کرتے تھے؛ جیسی اب کر رہے ہیں!!