میں نے انتخابات کے لیے بننے والی الیکٹرول لسٹ اور اس لسٹ میں شامل ہونے والے نئے ووٹرز کی تعداد دیکھی تو حیران رہ گیا۔ 18سال سے 35سال کے بیچ کتنے ووٹرز ہیں۔ 2018ء کے مقابلے میں 2024ء کے انتخابات میں کتنے نئے ووٹرز یعنی 18 سال کی عمر میں داخل ہونے والے کتنی بڑی تعداد میں اس بار اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ سارے اعدادوشمار نئے انڈیکیٹرز میں پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ آبادی کا وہ حصہ ہے جو زیادہ پرجوش اور توانائی اور زندگی کے نئے تقاضوں سے آشنا ہے آبادی کا یہ حصہ اس بات کا محتاج نہیں کہ وہ جس کو ووٹ دینا چاہتا ہے اس کو ووٹ دینے کے لیے پولنگ سٹیشن پہنچنے میں کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ وہ نہ صرف اپنا حق رائے دہی زیادہ پرجوش انداز میں استعمال کرنے کا اہل ہے۔ اس لیے غالب امکان ہے کہ اس بار ووٹ ڈالنے کی شرح حوصلہ افزا ہو گی۔ میں آج ان نوجوانوں سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اب سوسائٹی کے کارآمد افراد بن رہے ہیں۔ بننے والے ہیں یا بن چکے ہیں۔ کارآمد سے میری مراد اب آپ عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں یا رکھ چکے ہیں۔ اب آپ اپنے کیریئر کا انتخاب بھی کر چکے ہیں۔ یا کرنے والے ہوں گے۔ ہماری سوساٹی کے وہ نوجوان جو سکول اور کالج کی تربیت سے بہرہ نہیں ہو سکے۔ وہ بھی اسی عمر میں پہنچ کر شعور کی منزل کو چھو رہے ہیں۔ ان کے لیے ہر طور یہ اعزاز کی بات ہے کہ وہ ووٹ دینے کے حقدار ہو گئے ہیں۔ اب وہ جس کو چاہیں ووٹ دیں یہ ان کا حق ہے لیکن اس عمر میں پہنچ کر آپ کو چند باتیں ضرور ذہن نشین کر لیں آپ نے کبھی سوچا کہ نالائق اور لائق آدمی کامیاب اور ناکام آدمی میں کیا فرق ہوتا ہے یہ دنیا کا مہنگا ترین سوال ہے اور اس سوال کا جواب بھی انتہائی قیمتی ہے۔ ہم اگر ایک لمحے کے لیے کامیابی اور ناکامی کی تعریف کو ایک طرف رکھ دیں اور یہ بھول جائیں۔ دنیا میں ہر شخص کی کامیابی کا اپنا معیار ہوتا ہے اور بعض لوگ ناکامی کو کامیابی سمجھتے ہیں اور چند لوگ اس ناکامی کو کامیابی قرار دیتے ہیں، جسے پوری دنیا کامیابی سمجھتی ہے۔ ہم اس حقیقت کو چند لمحوں کے لیے ایک طرف رکھ دیں اور صرف اس سوال پر غور کریں کہ لائق اور نالائق آدمی اور کامیاب اور ناکام شخص میں کیا فرق ہوتا ہے۔ لائق اور کامیاب لوگ اپنا زیادہ وقت اپنے کام اپنے کاز اور اپنے پروفیشن کو دیتے ہیں جبکہ ناکام لوگوں کا زیادہ وقت فضول ضائع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں لائق اور نالائق دونوں برابر ہوتے ہیں۔ قدرت دونوں کو اپنا بندہ سمجھتی ہے۔ دونوں کو زندگی کے نشیب و فراز سے ایک ہی طرح گزرنا پڑتا ہے لیکن لائق شخص اپنی زندگی کے فوکس سے نہیں ہٹتا یہ محنت ترک نہیں کرتا۔ آندھی آئے یا طوفان یہ اپنی کمٹمنٹ اپنے وعدے اور اپنی روٹین کو ٹوٹنے نہیں دیتا جبکہ نالائق لوگ بہانے بہانے سے اپنی کمٹمنٹ توڑتا رہتا ہے۔ یہ مختلف کیریئر کے حوالے سے اپنے ارادے بدلتا رہتا ہے۔ یہ اس کے لیے نئے نئے جواز تراشتا رہتا ہے۔ وہ سارے جواز کام نہ کرنے محنت سے جی چرانے اور اپنی ذمہ داری سے بھاگنے کے بہانے ہیں اور یہ بہانے انسان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ کامیابی کے لیے کسی استاد کسی مسیحا کسی مہربان کسی خدا ترس یا کسی کمزور چھپڑ پھٹنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کامیابی کے لیے صرف دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کا کرم اور محنت اور سچ پوچھیں تو یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اللہ کے کرم سے بڑی طاقت اور محنت سے بڑا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ اگر محنت آپ کو کامیابی سے ہمکنار نہ کر پائے تو پھر انتھک محنت کریں ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس میں برکت ڈالنے کی دعا بھی کرتے رہیں یقین جانیں اللہ تعالیٰ کی ذات آپ کی کوششوں کی شاخوں پر پھل لگائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں متعدد قسم کے ٹیلنٹ پیدا کیے ہیں۔ ان کیٹیگریز میں لیڈرز، بزنس مین، کھلاڑی، وکیل، آرٹسٹ، فائٹر، جاسوس، منتظم، مبلغ موجد استاد سیاستدان، ڈاکٹرز، انجینئرز، مزدور اور کسان میں اور ہم سب ان میں سے کسی ایک گروپ سے جڑے ہوتے ہیں۔ آپ کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آپ زندگی بھر اپنی جس عادت کو اپنا مشغلہ یا اپنا شوق سمجھتے رہتے ہیں وہ دراصل ہمارا ٹیلنٹ ہمارا پروفیشن ہوتا ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ کام جسے کرتے ہوئے آپ تھکاوٹ محسوس نہ کریں جو آپ کو وقت کا احساس بھلا دے، جس کی تکمیل کے بعد آپ خوشی محسوس کریں اور آپ کی جس صلاحیت کے اعتراف پر دوست اور دشمن دونوں مجبور ہو جائیں، وہ ہی آپ کا ٹیلنٹ اور آپ کا پروفیشن ہوتا ہے۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں خواہ آپ اپنی عملی زندگی میں داخل ہونے والے ہوں۔ ہو چکے ہوں یا مستقبل کا پلان بنا رہے ہوں۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ کے پاس اللہ کے کرم اور محنت کے علاوہ کچھ نہیں لیکن یقین جانیں یہ وہ دو اثاثے ہیں جنہیں دنیا کی کوئی طاقت آپ سے نہیں چھین سکتی کیونکہ دنیا کی دس ہزار سال کی ریکارڈ ہسٹری میں آج تک کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے محنت کرنے اور اللہ سے دعا کرنے کا حق نہیں چھین سکا۔ محنت وہ عطیہ ہے جس کے ذریعے انسان پتھر کو ہیرا اور ہیرے کو شیشہ بنا سکتا ہے اور اللہ کا کرم وہ طاقت ہے جو غرور کو آگ کو بھی گلزار بنا دیتی ہے، چنانچہ آپ اللہ کے کرم اور اپنی محنت کو اپنا سہارا بنائیں دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کامیابی تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔ ایک بات اور یاد رکھیں اپنی ذات سے محبت کریں۔ اپنا وقت فضول باتوں اور کاموں میں ضائع نہ کریں۔ آگے بڑھنے کے لیے آنے والی مشکلات مسائل اور مصائب سے خوفزدہ نہ ہوں۔ اپنے ارادوں کو متزلزل نہ ہونے دیں۔ آپ یہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کرام کو اس دنیا میں بھیجا، وہ یقینا نیکی کا منبع تھے۔ ان کی آمد ایک ایسا سلسلہ تھا جس کے بطن سے نیکی ’’اچھائی، خوبی اور سچائی جیسے جذبوں نے جنم لیاتھا‘‘لیکن خود اندازہ کیجئے کہ دنیا میں کوئی ایسا نبی آیا جسے اپوزیشن کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ لوگوں نے جس کا مذاق نہ اڑایا ہو۔ لوگوں نے جسے پتھر نہ مارے ہوں۔ لوگوں نے جسے قبول کرنے اور ماننے سے انکار نہ کیا ہو۔ دنیا میں کوئی دیوتا، اوتار، قطب، ولی اور صوفی بتائیں جس نے آزمائش کے دن نہ گزارے ہوں۔ کوئی ایسا لیڈر بتائیں جس نے بچپن لڑکپن اور جوانی مشکل میں نہ گزاری ہو کوئی ایسا بڑا کھلاڑی، مصور، ادیب، موسیقار اور شاعر بتائیں جو امتحان سے نہ گزرا ہو۔ میں نے سینکڑوں بڑے لوگوں کی بائیو گرافی پڑھ رکھی ہیں۔ 90فیصد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بے شمار مسائل تنگدستی میں اپنا سفر شروع کیا۔ بے شمار مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دنیا میں تو لوگ آئین اسٹائن جیسے شخص کو کیلے کے چھلکے مارتے رہے۔ نیوٹن کو پاگل گلیوبلیو کو احمق اور بل گیٹس کو نالائق کہتے رہے کوئی ایسا بڑا تاجر اور صنعتکار بتا دیں جس نے ابتدائی زندگی مشکل اور پریشانی میں نہ گزاری ہو۔ پھر آپ بھی ان مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کر لیں۔ ہمت نہ ہاریں، اللہ پر بھروسہ رکھیں اور محنت کرنا سیکھیں کامیابی آپ کی منتظر ہے۔