وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بن چکی ہیں۔ آٹھ فروری کے متنازعہ انتخابات کے بعد کئی سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تحریک انصاف جو موجودہ سنی اتحاد کونسل کے نام سے اسمبلیوں میں موجود ہے ، غصے اور احتجاج کا اظہار کر رہی ہے۔ وہ وفاقی حکومت کو ایک جائز طورپر منتخب حکومت ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام بھی وفاقی حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور اصرار کر رہی ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات فری اور فیئر نہیں تھے۔ جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارتی پختون خواہ ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ ، سندھ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس الیکشن کو منصفانہ تسلیم نہیں کر تیں۔ ایسے ماحول میں مسلم لیگ (ن) کے نامزد وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیراعظم کے منصب کا حلف اُٹھا چکے ہیں۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف اپوزیشن کو جو سخت غصے میں ہے ، مفاہمت کی پیشکش کی ہے۔ انہوںنے میثاق مفاہمت اور میثاق معیشت کرنے کی تجویز دی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے بپھرے ہوئے نومنتخب ارکان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ پوری قوم یہ سوچنے پہ مجبور ہے کہ تنائو اور الزام تراشیوں کے اس ماحول میں نئی حکومت لوگوں کیا کچھ کر پائے گی؟ پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کا بحران قوم کو پہلے بھی درپیش نہیں تھا۔ بد انتظامی ، بد عنوانی اور قومی مفادات کی جگہ ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دینے کا جو سلسلہ ستربرس سے جاری تھا اس نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ جہاں آگے بربادی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس سے پہلے حکومت اور اپوزیشن بھی سیاست بازی اور محاذ آرائی کی گنجائش موجود رہتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معاشی حالات اس قدر خراب نہیں تھے۔ جتنے اب ہیں ۔ اس بات پر ساری سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ پاکستان کی معیشت تباہ حال ہے۔ قرضوں کا حجم اس قدر زیادہ ہے کہ پاکستان کی پیداوار اور کمائی ہے وہ ساری قرض خواہوں کے قرضے اُتارنے میں صرف ہوجائے گی ۔ مہنگائی کے خاتمے اور ترقیاتی کاموں کیلئے کوئی سرمایہ نہیں دستیاب نہیں سکے گا۔ جن حضرات نے حکومت سنبھالی ہے اُن کو بھی علم ہے کہ وہ موجودہ حالات میں ملک کے لئے اور لوگوں ک لئے کچھ کرنے کے قابل نہیں۔لوگ توقع لگائے ہوئے ہیں کہ نئی حکومت ان کو افراط زر اورمہنگائی کے بوجھ سے نجات دلائے گی ۔ لیکن حکومت کے پاس کوئی ایسا روڈ میپ نہیں کہ جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو کوئی ریلیف دے سکے۔ دوسری طرف ملک کی سلامتی کے لئے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ہمارے مغربی پڑوسی ملک سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر تباہی مچارہے ہیںاور مشرقی پڑوسی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بلوچستان میں اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔یہ حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ سب جماعتیں مل کر ملک کو سیاسی ، معاشی اور سیکورٹی بحران سے نجات دلائیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جس میثاق مفاہمت کی بات کی ہے وہ ملک کی بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن اس کیلئے انہیں اپوزیشن کو ریلیف دینا ہوگا۔ اعتماد سازی کیلئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے اپوزیشن کو یہ محسوس ہو کہ ان کو دیوار سے لگانے کی بجائے اُن کی باتیںمانی جارہی ہیں۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران عندیہ دیا ہے کہ وہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ وہ سیاسی قیدی جو حکومت کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث نہیں پائے اور انہیں محض اختلاف رائے رکھنے اور سیاسی اداروں کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر جیل میں ڈالا گیا ہے ان کو رہا کرنے سے اپوزیشن کو یہ پیغام جائے کہ انہیں یہ ریلیف دیا جا رہا ہے۔ جن سے اُن کا احتجاج اور غصہ کم ہو سکے گا۔ یعنی اُن کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی عدالتوں سے جو ریلیف قانونی طورپر مل سکتا ہے وہ ملنا چاہیے اور اس راستے میںانہیں رکاوٹیں نہیں ڈالی جانی چائیں کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایاجا رہاہے۔ سیاسی ماحول کے بہتر ہونے کا ایک اہم نتیجہ یہ ہو گا کہ سیاسی مکالمے اور مصالحت کی راہ نکل سکے گی۔ وزیراعظم صاحب میثاق معیشت کی جو بات کر رہے ہیں وہ میثاق اسی وقت ممکن ہو سکے گا کہ جب ساری سیاسی جماعتیں پاکستان کو ،جس کی معاشی نبض ڈوب رہی ہے۔ اس صورت حال میں بچا کر اپنے پائوں پر کھڑا کر سکتی ہیں۔ سیاسی ماحول کو بہتر بنانے کے لئے پیش رفت کا فیصلہ حکومت کے پاس ہے۔ یہ ذمہ داری بھی حکومت کی ہے کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے نکالے ۔ ملک کے معاشی بحران پر ملک کے اندر اور باہر اتنا کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ اس پر کئی کتابیں تیار ہو سکتی ہیں۔ ہمارے معیشت دان ، صنعت کار ، بعض سیاسی لیڈر ، بڑے بڑے کاروباری حضرات کو علم ہے کہ پاکستان کو معاشی طورپر کون سے فیصلے اور کردار کنگال کر رہے ہیں۔ اس تباہی کا حل کیا ہے؟ لیکن آگے بڑھ کر عملی طوپر کام کرنے کی کسی میں ہمت نہیں دکھائی دیتی ۔ اب تک تو یہ طبقہ ذاتی مفادات کے حصول اور مالی بنانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ معاملہ اب مزید نہیں چل سکے گا۔ ملک نڈھال ہو چکا ہے۔ دنیان کے کئی مالیاتی ادارے اور معیشت دان ہمیں ایک عرصے سے خبردار کر رہے ہیں کہ ہم بربادی کے راستے پر گامزن ہیں لیکن کس کو پرواہ نہیں ہے۔ شاید ہمارے پاس آخری موقع ہے کہ ہم ہوش میں آئیں اور 25پچیس کروڑ عوام کے اس ملک کو جو اپنے اندر ایک معاشی قوت بننے کی صلاحیت رکھا ہے ، ترقی کی راہ پر ڈالیں اور ایک ایٹمی ملک کے شایان شان اس کی حیثیت کو تسلیم کر ائیں ۔ جس سے عالمی اور علاقائی سطح پر ہمار امیج بہتر ہو سکے جس کا بہتر ہونا بہت ضروری ہے۔