سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار اور عقل کو حیران کر دینے والی ترقی نے روایتی معاشرے کی ترجیحات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اقدار ہی نہیں بدلیں وہ سب کچھ تبدیل ہو کر رہ گیا ہے جس پر پرانے معاشرے کا دارو مدار تھا۔ مثلاً کتاب کا معاملہ ہی دیکھیے۔ علوم و فنون کی ساری ترقی سچ پوچھیے تو کتاب ہی کی مرہون منت ہے۔ لیکن الیکٹرونک میڈیا کی مقبولیت نے کتاب کے جادو کو جو سر چڑھ کر بولتا تھا‘ قطعی طور پر ماند کر دیا ہے۔ مطبوعہ کتاب کی مانگ دن بدن کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں کمپیوٹر‘ فیس بک‘ موبائل اور نیٹ سے ملنے والی اطلاعات و معلومات کی آسان رسائی نے مطبوعہ ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور ضرورت کو تقریباً صفر کر دیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اب بھی ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو کتاب کا رسیا ہے لیکن اس طبقے کے زور و اثر میں روز بروز کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ اصل سوال نئی نسل کا ہے جسے کتاب اور اخبار و رسالے سے ذرہ بھر دل چسپی نہیں۔میں نے جب بھی بحیثیت استاد اپنے طلباء و طالبات سے ان کی کتب اور اخبار بینی کی عادت کی بابت پوچھا ہے‘ ہمیشہ مایوس کن جواب پایا ہے۔ اکا دکا طالب علم یا طالبہ نے ضرور یہ حوصلہ جواب دیا ہے کہ انہوں نے کسی مقبول ادیب یا ادیبہ کا کوئی ناول پڑھ رکھا ہے‘ باقی ہر طرف سے یہی جواب پایا ہے کہ وہ نہ اخبار پڑھتے ہیں اور نہ کتاب۔ گویا ان کی زندگی میں مطبوعہ ذرائع ابلاغ کا رتی برابرب بھی عمل دخل نہیں۔ اس سوال پہ کہ آخر وہ پڑھتے کیوں نہیں‘ ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواز نہیں پایا۔ کچھ طالب علم البتہ یہ کہتے ہیں کہ انہیں اخبار و کتاب کی افادیت کا اندازہ نہیں۔ کیوں کہ جو خبریں اخبار میں چھپتی ہیں ان کی اطلاع انہیں الیکٹرانک میڈیا سے بآسانی مل جاتی ہے۔ تو پھر وہ اخبار کیوں پڑھیں؟ آج کل کی پر ہنگامہ زندگی میں کتاب پڑھنے کے لئے وقت اور یک سوئی کہاں سے لائیں؟ میں ان تمام باتوں کو محض بہانہ بازی ہی تصور کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ کتاب کا نعم البدل کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی۔ جس زمانے میں وی سی آر مقبول ہوا تھا اس وقت یہ پیش گوئی کی جاتی تھی کہ اب سینما ہائوسوں کا مستقبل تاریک ہے لیکن ہوا کیا۔ کمپیوٹر نے وی سی آر کی جگہ لے لی اور سینما گھروں کا جدید طریقے سے احیا ہوا اور زیادہ اچھے اور آرام دہ سینما گھر تعمیر ہو گئے۔ بالکل اسی طرح میرا یقین ہے کہ کتاب کی جگہ نہ کمپیوٹر لے سکتا ہے اور نہ موبائل۔ کاغذ کا لمس اور کتاب کھول کر نیم دراز ہو کر پڑھنے کی لذت ایسی ہے کہ اس کی جگہ کوئی اور چیز لے ہی نہیں سکتی۔ کتاب کا حال کتنا ہی مخدوش ہو لیکن اس کا مستقبل تاریک نہیں۔ ہر چند کہ اب ایسی ایجادیں بھی سامنے آ گئی ہیں جس میں لکھنے کے لیے قلم اور کاغذ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ آپ بولتے جائیں اور اسکرین پر آپ کے بولے ہوئے الفاظ اور جملے کمپوز ہوتے جائیں گے۔ شاعر مشرق نے شاید آج ہی کے زمانے کی بابت فرمایا تھا! آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی جدید زمانے کی ترقیوں سے میں بہت خوش نہیں ہو پاتا۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ ای میل کی سہولت نے مکتوب نویسی کا مستقبل تاریک بنا دیا۔ مکتوب نگاری جب تک رائج تھی۔ مشاہیر کے خطوط کتابی صورت میں علم و ادب کی ترقی کا قابل قدر ذریعہ تھے۔ مرزا غالب کے خطوط ہوں یا مولانا آزاد کے ’’غبار خاطر‘‘ والے مکتوبات۔ ان سے زبان و ادب کا ارتقا وابستہ تھا۔ لیکن اب خط ہی کون لکھتا ہے۔ نوے ننانوے فیصد افراد اپنی ضرورت مکتوب نویسی کی بجائے ای میل سے پوری کر لیتے ہیں۔ اسی طرح موبائل کے واٹس اپ اور میسجز نے عید بقرعید کے تہنیتی کارڈوں کے استعمال کو مفقود کر دیا ہے۔ اسی طرح فیس بک پر تصویریں کھینچ کر اس پر ڈالنے کا فیشن ایسا چل پڑا ہے کہ تصویری البم رکھنے کے سلسلے کو ختم سمجھیے۔ تو نئی ترقیوں نے جہاں کئی پہلوئوں سے آسانیاں پیدا کی ہیں تو دوسرے پہلو سے معاشرے کی کئی قابل قدر روایات کا خاتمہ بھی کر دیا ہے۔وہ چیزیں اور وہ باتیں جس سے معاشرے کا حسن وابستہ تھا۔ رفتہ رفتہ ختم ہوتی جاتی ہیں اور زندگی کا انحصار مشینوں پر بڑھتا جاتا ہے۔ بلکہ خود انسانی طبع کے معاشرتی اور معاشی بکھیڑوں میں پڑ کر مشین بن چکا ہے۔ احساسات و جذبات کچلے جاتے ہیں اور اوزار و آلات ہی ان کی جگہ لیتے جاتے ہیں۔ نہیں کہہ سکتا کہ دنیا اور انسانیت کا مستقبل کیا ہے؟ اور یہ سفینہ غم دل کہاں جا کر ٹھہرے گا؟ مجھے سب سے زیادہ تشویش کتاب کے مستقبل کی بابت ہے۔ اس یقین کے باوجود کہ کتاب باقی رہے گی‘ لیکن کتاب کی عدم مقبولیت سوہان روح سے کم نہیں۔کسی نے ویڈیو کے ذریعے اس اطلاع سے باخبر کیا کہ دوبئی میں ایک مغربی باذوق خاتون نے دو ایسے کتاب گھر کھول رکھے جس میں کوئی ملازم نہیں۔ خریدار آتے ہیں اور اپنی پسند کی کتاب لے کر قیمت گَلّے میں ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ ان خاتون سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا وہ وقت قریب نہیں جب لوگ کتابیں پڑھنا چھوڑ دیں گے؟ خاتون نے جواب دیا کہ کتاب کے کاغذ کو ہاتھ سے چھونا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اسے کوئی چیز replaceنہیں کر سکتی۔ مجھے تو دوبئی کے رہنے والوں کی ایمانداری پر رشک آیا۔ کاش ! ساری دنیا اور بالخصوص ہمارے ملک میں ایسی ایمانداری عام ہو جائے۔ اقدار و روایات کی منتقلی اور علم و ادب کو جیسا فروغ کتاب سے مل سکتا ہے۔ کسی اور طرح ممکن ہی نہیں۔ افسوس کا پہلو یہی نہیں کہ کتاب کے قارئین نہ رہے یا بہت کم ہوتے جاتے ہیں۔ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ مطالعہ کتب کو بھی وقت کا زیاں سمجھا جانے لگا ہے۔ میاں صاحب اگر گھر میں کتاب میں غرق ہوں تو اہلیہ محترمہ بگڑتی ہیں کہ کیوں وقت برباد کرتے ہو‘ کوئی ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کرتے۔ بعض والدین تو بچوں کو رسالے پڑھتے دیکھ لیں تو ہدایت کرتے ہیں کہ کورس کی کتاب کیوں نہیں پڑھتے۔ ضرورت اس کی بھی ہے کہ کتاب کی اہمیت و افادیت ذہن نشین کرائی جائے۔اور اس کام کے لیے الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کیا جائے۔ کتاب اور مطالعہ کتاب کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ ہر مذہب کی حقیقت اس کی الہامی کتاب سے جڑی ہوئی ہے۔ ہر نظریہ اور ہر فلسفہ کتاب ہی میں محفوظ ہے۔ کتاب کی معلومات بالعموم مستند ہوتی ہے جبکہ نیٹ کے استناد کی حقیقت معلوم۔ کتاب کی معلومات درست نہ ہوں تو اس کی تردید میں دوسری کتاب موجود ہوتی ہے۔ نیٹ پر جو چاہے جیسی بے بنیاد اطلاعات و معلومات فیڈ کر دے۔ اگر کتاب کا احیا نہ ہوا تو اندیشہ ہے کہ تہذیب اور اس کی اقدار و روایات کی حفاظت بھی ممکن نہ ہو سکے گی۔ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کتب بینی کا رجحان کم ہوا ہے لیکن تاحال وہاں کتاب سے بے رغبتی اس قدر عام نہیں جو حال ہم جیسے معاشروں کا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم لوگ مغرب سے وہ کچھ لیتے ہیں جس میں تخریب اور تباہی کے امکانات روشن ہوتے ہیں اور وہ عادات و روایات کو مغرب کی چھوڑ دیتے ہیں جس میں ترقی و تعمیر کے پہلو موجود ہوں یہ بھی کتاب ہی بتاتی ہے کہ ہمارے حق میں کیا اچھا اور کیا برا ہے۔ اس لئے کتاب کو حرز جاں بنا کر رکھنا ہی اچھا!