میاں شہباز شریف اپنی وزارت اعلیٰ کی مقررہ مدت سے آٹھ دن زیادہ صرف اس لئے حکومت کر پائے کہ پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کے لئے حکومت اور اپوزیشن مین اتفاق نہیں ہو پایا۔ الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ کرنا پڑا اور انہوں نے پروفیسر حسن عسکری جیسے عالم فاضل جو جمہوریت کے بارے میںبا علم چند ایک لوگوں میں سے ہیں کا انتخاب کیا۔ اسکے ساتھ ہی بلوچستان میںنگران وزیر اعلیٰ کا تقرر بھی الیکشن کمیشن کرچکا ہے ۔ گزشتہ جمعرات سے ملک بھر میں با قاعدہ نگرانوں کا دور شروع ہو چکا ہے۔ ان حکومتوں کے لئے کابینہ کی تشکیل کے علاوہ بہت سے اہم چیلنجز ہیں۔ جن میںانتخابات کے بر وقت انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن کی بھر پور مدد کرنا بہت ضروری ہے۔ماضی قریب میں جمہوریت کے پٹڑی سے اترنے کے جتنے دعوے کئے گئے وہ سب جھوٹ نکلے اسی طرح سے امید ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کا جو شوشہ چھوڑا جا رہا ہے وہ بھی درست ثابت نہیں ہو گا۔ وفاقی کابینہ کے نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر علی ظفر نے بڑے واضح انداز میںنگران حکومت کے اہداف واضح کئے ہیں جو بہت حوصلہ افزا ہیں۔ انکے مطابق کابینہ نے پہلے اجلاس ہی میں طے کر لیا ہے کہ ملک میں بر وقت، شفاف اور پر امن انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے گا۔اس وعدے کو پورا کرنا عام حالات میں اتنا مشکل کام نہ ہوتا لیکن جو سیاسی اور امن و امان کی صورتحال ملک میں موجود ہے اس میں یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔سیاسی افراتفری پھیلانے کی چند ماہ سے کوشش جاری ہے لیکن ابھی تک ایک سیاسی جماعت کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ جس قسم کا واویلا مسلم لیگ (ن) پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری پر کر رہی ہے وہ اس ہنگامے کی بنیاد رکھی جا رہی ہے جو انکے تا حیات قائد کی تا حیات نا اہلی کے بعد کرپشن کے مقدمے میں ممکنہ سزا کی صورت میں پلان کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کا رواج کبھی نہیں رہا۔ اسکی بہت ٹھوس وجوہات ماضی میں رہی ہیں۔جس میں حکومت کو مدت مکمل کرنے نہ دیا جانا اور پھر صدر کی طرف سے برطرفی کے بعد جانے والے حکمرانوں کی کردار کشی اور مقدمات۔ جو اس بات کا عندیہ ہوتا تھا کہ یہ پارٹی تو حکومت میں واپس نہیں آئے گی۔ جو تگڑے امیدواروں اور سیانے ووٹروں کے لئے ایک اشارہ ہوتا تھا۔ پھر انتخابات کے نتائج کے اعلان کا عمل بہت شفاف نہیں تھا ۔ صرف سرکاری ٹی وی کی موجودگی میں اعلان بھی وہیں سے ہوتا تھا۔ اسکے فیکس پر جو نتیجہ الیکشن کمیشن یا کسی خفیہ سیل سے آتا تھا وہ انائونس ہو جاتا تھا اور اسے ہی حتمی تسلیم کیا جاتا تھا۔بھلے جیتا کوئی بھی ہو۔1997 ء کے انتخابات کے نتائج سب سے دلچسپ رہے بلکہ اسکو ایک کیس سٹڈی کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ قومی اور صوبائی نشستوں پر انتخاب ایک ہی دن ہوا تھا جس میںمیاں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی اور انہوں نے اسکے زعم میں ہر قومی ادارے کو ٹکر ماری اور با لآخر آخری ٹکر جنرل مشرف کو دے ماری جو جنگ عظیم اول میں ایک جنگجو گھوڑے کی یاد دلاتی ہے جس نے بہت سے اہم لاجسٹک کے کام سرانجام دینے کے بعد جوش جذبات میں ایک بم کو دولتی رسید کر دی اور وفات پائی۔خیرذکر 1997 ء کے انتخابات کا ہورہا تھا۔ ایک ہی دن ہونے والے انتخابات میںقومی اور صوبائی اسمبلی کے ووٹوں کی گنتی میں بیشتر حلقوں میں جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی امیدوار جیتے تھے کم از کم تیس سے پینتیس ہزار ووٹوں کا فرق تھا۔ایک ہی حلقے میں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے پڑنے والے ووٹ اور صوبائی نشست کے ووٹوں میں اس قدر تفاوت پر کچھ لوگوں نے ہمت کر کے عدالتوں میں چیلنج کرنے کی کوشش کی لیکن ملک کے وسیع تر مفاد میں بعد میں خاموشی اختیار کر لی۔ان انتخابات کے بارے میں پیر پگاڑا مرحوم نے کہا تھا یہ اتنے صاف اور شفاف ہیں کہ آر پار دیکھا جا سکتا ہے۔ 2013 ء کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی ایک ہی دن منعقد ہوئے اور اس میں بھی اس قسم کی شکایت ملی۔ اس بارے میں محترم اعجاز الحق سے حال ہی میںہلکے پھلکے انداز میں ایک مکالمہ ہوا۔ انکی اجازت کے بغیر لکھ رہا ہوں۔ فرمانے لگے کہ کچھ روز پہلے مسلم لیگ (ن) کے کچھ دوست بہت تنگ کر رہے تھے کہ اندر کی خبر بتائو کیا ہونے جا رہا ہے۔ جب انہوں نے بہت تنگ کیا تو اعجاز الحق کے بقول انہوں نے کہا کہ بر وقت انتخابات ہونے جا رہے ہیںبس فرق اتنا ہو گا کہ اس بار آپ پر مہربانی نہیں ہوگی۔ اگرچہ اسکی ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن اور ان تمام سیاسی جماعتوں پر ہے جو انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں کہ اپنے پولنگ ایجنٹس اور امیدواروں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنائیں کہ پولنگ والے دن اس قسم کی ہیرا پھیری کے امکانات ختم کئے جا سکیں اور 2018 کے انتخابات کے بعد پینتیس پنکچر یا ووٹ کی عدم حفاظت کی آڑ میں کوئی کھیل نہ کھیلا جا سکے۔ دوسرا بڑا چیلنج نگران حکومتوں کی غیر جانبداری ہے۔ ماضی کی نگران حکومتوں کی طرح انہیں کسی بھی سیاسی جماعت کے دور حکومت کے بارے میں کوئی رائے دینے سے اجتناب کرنا ہو گا۔یہ کام آنے والی منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ سابقہ حکومت کے کارناموں کی گوشمالی کس انداز میں کرتی ہے۔ کیونکہ یہ حق منتخب حکومت کو ہی حاصل ہونا چاہیے کہ وہ پہلے دور میں ہونے والے غلط اقدامات، کرپشن اور مس گورننس کے بارے میں سوال کرے اور جہاں احتساب کی ضرورت ہو وہاں بھرپور طریقے سے کیا جائے۔نگران حکومت کی اس بارے میں نگرانی بہت ضروری ہے جہاں وہ کوئی ایسا بیان یا قدم اٹھاتے نظر آئیں جس سے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات میں نقصان پہنچ سکتا ہے اس پر میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو آواز اٹھانی چاہیے۔