ہنگری ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ہم اس چھوٹے سے ملک کے ساتھ مضبوط تعلقات بنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ دنیا بھر کے دانشور حیران ہیں کہ ہنگری نے سائنس‘ادب‘ آرٹ اور علم کے شعبوں میں اتنے اعلیٰ پائے کے ماہرین کیسے پیدا کر لئے۔ اب تک ہنگری کی 13شخصیات فزکس‘میڈیسن‘ کیمسٹری‘ اکنامکس اور لٹریچر میں نوبل انعام حاصل کر چکی ہیں۔ ایسے ملک کا وزیرخارجہ پیٹر سجارٹوپاکستان آئے اور ہمارے شاہ محمود قریشی کے ساتھ کھڑے ہو کر برملا کہے کہ ایف اے ٹی ایف سیاسی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے‘ پھر پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے سنجیدگی سے منصوبوں کی بات کرے تو اسے پاکستان کے لئے اچھی خبرکہا جا سکتا ہے۔ایک امید باندھی جا سکتی ہے کہ ہمیں یورپ میں ایک دانشمند اتحادی میسر آ رہا ہے۔ ہنگری کے لوگ بہت با کمال ہیں ،یہ آپ کا دل چرا سکتے ہیں، آپ کو باتوں سے موہ لیتے ہیں،ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری سے آپ کے کام آ سکتے ہیں،شاندار ناول لکھ سکتے ہیں اورمحدود سی زمین سے اپنی ضرورت کا اناج اگا کر خودکفالت حاصل کر سکتے ہیں۔ان کے کچھ کمالات دیکھیے: سرخ مرچ سولہویں صدی عیسوی میں عثمانی ترک ہنگری میں لائے‘ اسے ہنگرین پیپریکا کہتے ہیں۔ ہنگری کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان البرٹ زینٹ نے 1928ء میں پیپریکاسے وٹامن سی کشید کیا۔ امریکہ میں فوکس سٹوڈیو کے مالک نامور فلم پروڈیوسر ولیم فوکس ہنگری سے نقل مکانی کر کے آئے‘ کچھ انگریزی فلموں کے آغاز میں ایک ببر شیر دھاڑتا ہے۔ یہ پیرامائونٹ فلمز کی پروڈکشن ہوتی ہے۔ پیرامائونٹ پیکچرز کے مالک ایڈولف زوکر ہنگری سے تھے۔پلٹزر انعام کو نوبل انعام کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بانی جوزف پلٹزر ہنگری سے امریکہ وارد ہوئے۔ ہنگری وسطی یورپ کا لینڈ لاک ملک ہے‘ اس کی سرحدیں سلویکیا‘ یوکرائن‘رومانیہ‘ سربیا‘ کروشیا‘ سلووینیا اور آسٹریا سے ملتی ہیں۔ ہنگری کے لوگ یورالک زبان بولتے ہیں‘یورالک کا یورپ کی کسی زبان سے لسانی تعلق نہیں۔ ہنگری کا حجم صرف 93ہزار 30مربع کلو میٹر ہے۔ یہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ سے بھی چھوٹا ہے۔ علم و فضل‘ سائنس و ٹیکنالوجی میںیکتا ہنگری کی آبادی لاہور سے کم ہے‘ ایک کروڑ سے کم۔آپ ترقی کے لحاظ سے اسے اسرائیل کہہ سکتے ہیں لیکن یہاں کے باشندے ہرگز اسرائیلیوں کی طرح ظالم و بے حس نہیں۔ یورپ کا عظیم دریا ڈینیوب ہنگری کے علاقوں کو سیرانب کرتے ہوئے بیچ سے بہتا چلا جاتا ہے۔ دارالحکومت بڈاپسٹ ثقافتی‘صنعتی‘ تجارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ہنگری کی آبادی کا 80فیصد بڈاپسٹ میں رہتا ہے۔ ہنگری کے لوگوں کو اپنے ماضی اور تہذیب پر فخر ہے۔ یہ ایسے خانہ بدوش قبائل پر مشتمل آبادی ہے جو مشرقی یورپ میں آباد ہوئی۔ سن 1000عیسوی میں ہنگری کی بطور ریاست باقاعدہ بنیاد رکھی گئی، جب پوپ سلوسٹر دوم نے سینٹ سٹیفن دی کنگ کو تاج پہنایا۔ بارہویں صدی تک ہنگری علاقائی طاقت بن چکا تھا۔ چند ہفتے قبل ہنگری اور پاکستان نے توانائی‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سیاحت میں ساجھے داری کے منصوبوں کا طے کیا ہے۔ ہنگری کی میڈیکل اور فوڈ کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہاں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ٹریڈ ونڈو کھول دی گئی ہے۔ دونوں دوست ممالک کے مابین مستقبل کی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے ایک بزنس فورم بھی تشکیل دیا چکا ہے۔ ہنگری نے کے پی کے میں سات سال پہلے تعلیم کے شعبے میں خاصی سرمایہ کاری کی۔پٹرولیم کی مشہور کمپنی شیل کا تعلق ہنگری سے ہی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر ہنگری شکست خوردہ تھا۔ اس کا 71فیصد رقبہ فاتحین کے قبضے میں چلا گیا ،وہی فاتحین جنہوں نے بعد میں دنیا پر سیاسی غلبہ قائم کیا اور جن کی مرضی کے بنا آج کوئی ریاست تجارت کر سکتی ہے نہ کاروبار ۔دو تہائی سے زیادہ رقبہ کھو دینے اور ہزاروں لوگوں کی موت کے باوجود ہنگری کے لوگوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔1990ء میں ہنگری شکست کے بعدکئے گئے معاہدوں سے آزاد ہوا۔ ملک میں آج بھی 1920ء میں شکست کے معاہدے Trianonکے نفسیاتی اثرات سے متاثر اور اسے بھلا دینے والوں پر مشتمل دو صفیں ہیں۔ یہ صف بندی ہنگری کی سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی زندگی میں برقرار ہے۔ اپنی زبان اور فکر کے اعتبار سے ہنگری کے لوگ خود کو یورپ میں اجنبی تصور کرتے ہیں‘تاریخی طور پر وہ یورپ کے دیگر ممالک سے الگ تھلگ رہے ہیں‘ شاید یہی وجہ ہے کہ عیسائیت قبول کرنے کے بعد یہاں کے باشندوں نے خود کو لاطینی سے جوڑ لیا۔1844ء تک ہنگری کے شرفا لاطینی زبان بولتے تھے۔ ہنگری سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ہے۔ ہنگری کا جغرافیائی محل وقوع اس طرح کا ہے کہ یہ علاقہ حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے‘ ایسے ہی جیسے پنجاب اور سندھ۔یوں ان کا بیشتر وقت اپنا دفاع کرتے گزرا۔ ہنگری کے لوگوں کو تاریخی تجربات نے بتایا ہے کہ دوسری مغربی اقوام ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں‘مشکل وقت میں ہنگری کی مدد نہیں کی گئی۔ہنگری کے شہری مغربی ممالک کو ناشکرا سمجھتے ہیں۔ گزشتہ چالیس برس کے دوران کئی قومی سانحات کے باوجود ہنگی سائنس اور علم و ادب میں اپنے اعزازات سے خوش ہے۔ امریکہ کی ترقی میں ہنگری سے نقل مکانی کر کے آنے والے سائنسدانوں کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ ناکافی زمین والے ہنگری کے چھوٹے سے جنگلات میں ہرن اور جنگلی سور کی بہتات ہے۔ نشیبی علاقوں میں چوہوں کے خاندان والے جانور اور سرخاب پائے جاتے ہیں‘ اس ملک کی سالانہ جی ڈی پی 170ارب ڈالر کی ہے۔ کم از کم ماہانہ اجرت 488یورو ہے۔ ہنگری کی سب سے بڑی برآمدات کاریں اور ان کے پارٹس ہیں۔ ہنگری نوآبادیاتی طاقت والے یورپی ممالک جیسا نہیں سوچتا۔ اس کا احساس تنہائی اسے پاکستان تک لے آیا ہے۔ اب یہ ہمیں ثابت کرنا ہے کہ اس سرخاب کی قدر افزائی کریں یا اسے ذبح کر دیں۔