کیسے سنبھال پائے گا اپنے تو ماہ وسال کو میں نے اگر جھٹک دیا سر سے ترے خیال کو میں نے بھی تجھ کوپا لیا تو نے مجھ کو پا لیا تو نے مرے زوال کو میں نے ترے کمال کو لیجئے صحیح معنوں میں تبدیلی تو اب آئی ہے بلکہ یہ تبدیلی کے اندر تبدیلی ہے کہ فیاض الحسن چوہان آئوٹ اور فردوس عاشق اعوان ان۔ ویسے تو دونوں ہی ہم قافیہ ہیں مگر فردوس عاشق اعوان ذرا تازہ دم ہو کر آئی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر بھی ان کے آنے پر شادیانے بجائے گئے ہیںکہ وہاں ویسے یہ ہلکا پھلکا مذاق اور دل لگی ہی زندگی ہے کہ وہ خود بہت زندہ دل ہیں کہ ان کا کشمالہ طارق کے ساتھ مکالمہ کافی مشہور ہوا تھا۔ فی الحال ان کی خوشبو کی طرح پذیرائی ہورہی ہے۔ چلیے ان کے لیے ایک شعر ہو جائے: اس کو خوشبو کی طرح ساتھ بھی رکھوں اپنے اور پھر اس کو زمانے سے چھپانا چاہوں لگتا ہے فیاض چوہان کو پنجابیوں کی بدعا لگ گئی ہے کہ ا ن کے پنجابی زبان کے حوالے سے ارشادات پنجابیوں کو ہرگز پسند نہیں آئے۔ میں تو خود بھی انہیں سن کر حیرت زدہ رہ گیا کہ ایسا جوش خطابت کیا کہ بندہ خود کو ہی برا بھلا کہنا شروع کردے۔ وہ خود بھی پنجابی ہیں کہ انہوں نے خود کو کہا مگر ہمارا یوسف پنجابی غصے میں کہہ رہا تھا کہ وہ انہیں پنجابی نہیں مانتا۔ طاہرہ سرا جو پنجابی کی زبردست شاعرہ ہیں چوہان صاحب کے خلاف احتجاج پر اتر آئی ہیں۔ میں آپ کوس سپنس میں نہیں رکھنا چاہتا کہ فیاض چوہان محمود اچکزئی کے بیان کے وہ اردو کو نہیں مانتے کہتے ہوئے پائے گئے کہ وہ پنجابی زبان کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں کہ اگر اس کے مقابلے میں قومی زبان اردو اورپنجابی زبان ہو۔ ان کی بات آپ خود بھی یوٹیوب پر سن سکتے ہیں۔اب ہوا یہ ہے کہ اس انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان کے جواب میں ایک ایسا ہی بیان یوسف پنجابی نے بھی پنجابیوں کی طرف سے دے دیا کہ وہ اردو کو زبان ہی نہیں مانتے وغیرہ وغیرہ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم قرینہ اور سلیقہ کب سیکھیں گے۔ ہم دوسرے کی بات کو رد کیوں کرتے ہیں کسی کا انکار کیوں کرتے ہیں جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری مقامی زبانیں ساری ہی خوبصورت ہیں اپنا اپنا فلیور رکھتی ہیں یہ مختلف النوع پھول ہیں جو گلشن پاکستان میں اپنی اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ سب کا اپنا ایک کلچر ہے۔ جہاں تک اردو کا تعلق ہے تو یہ ہماری قومی زبان ہے اور ہم سب کا آپس میں رابطہ اسی کے باعث ہے اور پھر ہم میں غالب اکثریت الحمد اللہ مسلمان ہے اور اردو میں ہمارا ادبی‘ مذہبی اور ثقافتی ورثہ موجود ہے۔ تبھی تو اس زبان کو ہندو نے ٹارگٹ کیا کہ یہ تو مسلمانوں کی زبان ہے اس میں فارسی اور عربی کی مکمل آمیزش ہے۔ اس طرح یہ ہمین عظیم ورثے سے جوڑتی ہے۔ پنجابی کے خلاف بولنے کی نہ تو کوئی تک تھا اور کوئی موقع۔ پنجابی ہمارے مومنوں اور صوفی شعرا کی زبان ہے۔ پنجابی ادب میں گہر پارے بکھرے پڑے ہیں۔ اس کی شاعری کو دنیا کی عظیم شاعری کے مقابلے پر رکھا جا سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے پنجابی تخلیق کاروں نے اردو کو بھی ایسا اپنایا کہ اپنا بنا لیا۔ میں کسی تعصب کے بغیر کہوں گا کہ اردو ادب کو سب سے زیادہ پنجابی لکھنے والوں نے ثمرمند بنایا۔ سب سے بڑھ کر اس ملک کو حاصل کرنے والے نے اسے اردو کو قومی زبان قرار دیا اور پھر یہ ہمارے آئین کا حصہ ہے کہ اسے دفتری اور میل جول کی زبان بنایا جائے۔ فیاض الحسن چوہان نے خوامخواہ میں پرانی بحث پھر چھیڑ دی۔ میں تو اردو والوں کو بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی انگریزی کے خلاف بات نہ کریں کہ جس نے انگریزی پڑھنی ہے پڑھے مگر انگریزی کو اردو کی جگہ مسلط نہ کیا جائے۔ بات تو مگر سب کو محبت کے ساتھ کرنی چاہیے کہ محبت بھی اک زبان ہے بلکہ یہ ہر زبان میں موجود ہے۔ شعر یاد آ گیا: مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی میں محبت ہوں محبت کو بچالے کوئی وہی جو اقبال نے ’’اخوت کی زباں ہو جا محبت کا بیان ہو جا‘‘ کی بات کی ہے۔ یاد آیا کہ ایک پارلیمانی زبان بھی ہے۔ جو آپ اکثر سنتے ہیں اس سے ملتی جلتی زبان ٹاک شوز میں بولی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کی زبان بھی سمجھنی چاہیے اور اس کی قدر کرنی چاہیے وگرنہ وہی ہوگا کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ ہم تو خیر یار کے اشارے تک بھی سمجھتے ہیں۔ غالب بھی کیا شرارتی تھے۔ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے۔ اپنے ملک کے لیے ہم سب کا ہم زباں ہونا ضروری ہے جو اردو ہی کے باعث ممکن ہے۔ کیا کریں ورائٹی تو ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ آخر یہ محاورے یونہی تو نہیں بن گئے کہ فلاں جوتے کی زبان سمجھتا ہے اور فلاں ڈنڈے کی زباں۔ آنکھوں کی زباں بھی تو ہوتی ہے اور وہ زباں جو دل کی رفیق ہوتی ہے۔ دھمکی میں کہتے ہیں تم کون سی زبان سمجھو گئے۔ کڑوی اور میٹھی زبان یا تریش زبان حقیقتیں ہیں۔ مثلاً مجھے ہمیشہ سرائیکی میٹھی زبان لگی۔ ویسے تو قاری کو بھی شیریں کہتے ہیں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ زبان تو میڈیم ہے اس میں آپ نے اپنا مقصد سمونا ہوتاہے۔ ہر زبان ارتقا میں ہے۔ اردو میں بھی جذب کرنے کی بے حد گنجائش ہے۔ یہ فطرت کا سلسلہ ہے اور یہ بے سبب نہیں۔ باقی رہی بات تبدیلی کی تو یہ اسی طرح ایک دکھائو اور ایک چھپائو کے طریقہ کار میں مضمر ہے۔ خان صاحب یہی کچھ کر رہے ہیں جو وہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اگر نہیں بدلا تو وہ عثمان بزدار ہیں ابھی کل ہی آمنہ الفت سے بات ہورہی تھی کہ کاش خان صاحب اتنی تبدیلی ہی لے آتے کہ پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیتے تو کچھ کام چل جاتا۔ کچھ اور تبدیلیاں بھی آ رہی ہیں کہ ٹائیگر فورس کے مقابلے پر شیر جوان فورس آ گئی ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ فیاض چوہان کے علم ہی میں نہ تھا کہ انہیں فارغ کردیا گیا ہے۔ بس اسی طرح کسی دن کسی کو بھی فارغ کردیا جائے گا۔ اس میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ جتنی دیر میں لپٹا ہوا بستر کھلتا ہے: بات دل کی فقط سنا کیجئے زندگی ہے تو پھر جیا کیجئے