پیر رفیع الدین بخاری نہایت نفیس اور وضع دار آدمی ہیں۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم رات گئے ان کی جانب سے انکار کے بعد بستر میں جانے کی بجائے ان کے گھر کے باہر پہنچ گئے تھے اور وہیں صبح ہونے کا انتظار کرتے رہے تھے تو وہ حیران رہ گئے ۔ انہوں نے نہایت تپاک کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور تین گھنٹے پہلے کیے گئے اپنے انکار پر شدید معذرت اور شرمندگی کا اظہار کرنے لگے۔کہنے لگے فجر سے ان کے دن کا آغاز ہو جاتا ہے ، عام دنوں میں تو عشاء کے بعد سونے کی تیاری ہونے لگتی ہے لیکن انتخابات کے باعث سوتے سوتے رات کے دو بج جاتے ہیں ۔ہم نے ان کی مجبوری کا ادراک کرتے ہوئے کہا کہ انہیں معذرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،ہم دراصل رات ہی میں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اسلام آباد کے لیے نکلنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ رات میں انٹرویو کے لیے اصرار کیا۔ مختصر یہ کہ پیر صاحب نے انٹرویو دیا اور انٹرویو کے بعد ہمیں بغیر ناشتے کے جانے دینے سے انکار کر دیا۔ کھانے کی دعوت تقریبا سبھی امیدوار دیتے ہیں لیکن اپنی مصروفیات کے باعث رسما ہی کہہ پاتے ہیں ۔کچھ اصرار بھی کرتے ہیں مگر ہمارے پاس وقت نہیں ہوتامگر پیر رفیع الدین نے کچھ اس انداز میں کہا کہ ہم انکار نہ کر سکے ۔ یوں بھی ناشتے کا وقت تھا اور کام ختم ہو جانے کے بعد اب ہمیں کہیں اور پہنچنے کی جلدی بھی نہ رہی تھی۔ رفیع الدین بخاری نے اس تکلف کے ساتھ ناشتے کا اہتمام کرایا گویا انہیں اُس وقت ہمارے آنے کی پہلے سے خبر ہو۔لودھراں کے دور دراز گائوں کی اس مسجد سے ملحقہ ایک حجرے میں تازہ مکھن، گھی لگی روٹی، سالن، لسی اور چائے کے ساتھ ساتھ دیسی ناشتے کے تمام لوازمات موجود تھے۔ناشتہ کرنے کے بعد وہ اپنے بزرگوں کے مزار پر لے گئے اور دعا کے بعد ہمیں رخصت کیا۔اس کے ساتھ ہی وہ خود بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گاڑیوں میں سوار ہوئے اور انتخابی مہم پر نکل گئے ۔ پیر رفیع الدین روایتی سیاستدانوں جیسے نہیں ہیں نہ ہی وہ روایتی پیروں جیسے پیر ہیں۔ وہ نہایت سادہ شخصیت کے حامل ہیں۔وضع قطع سے دیہاتی معلوم ہوتے ہیں ۔ رہن سہن بھی بہت سادہ ہے ۔ انتخابی مہم کے دورا ن ہی میں نے پیش گوئی کر دی تھی کہ بیس میں سے ایک ہی آزاد امیدوار اپنی سیٹ کنفرم جیت رہے ہیں اور وہ پیر رفیع الدین بخاری ہیں ۔ نتیجہ آیا تو پیر صاحب پینتالیس ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر جیت چکے تھے۔ کچھ امیدوار ایسے بھی ہوتے ہیں جو انٹرویو دینے سے کتراتے ہیں۔ یہ لوگ انٹرویو دینے سے انکار بھی نہیں کرتے مگر اپنے سٹاف کے ذریعے گھماتے رہتے ہیں ۔ آ رہے ہیں ، پہنچ رہے ہیں ، فلاں جگہ سے نکل رہے ہیں،دو گھنٹے تک ڈیرے پر آ جائیں وغیر وغیرہ۔ ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ امیدوار کا انٹرویو دینے کا کوئی موڈ نہیں ۔ پھر اس کا بہترین حل یہی ہوتا ہے کہ اپنے مخبر کے ذریعے لوکیشن معلوم کی جائے اور سیدھا وہاں پہنچ جایا جائے ۔کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی حلقے میں ہم ایک مقامی شخص کو صبح سویرے امیدوار کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ جہاں جہاں امیدوار انتخابی مہم کے سلسلے میں جاتا ہے ہمارا ایک آدمی اس کے ساتھ ساتھ پھرتا ہے ، یوں ہمیں اس کی لوکیشن ملتی رہتی ہے، فراغت ملتے ہی ہم اسے سیدھا اس کے لوکیشن پر جا گھیرتے ہیں۔ایسی صورت میں امیدوار کے پاس انکار کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ ایسا ہی ہم نے دریا خان میں سعید اکبر نوانی کے ساتھ کیا۔ سعید اکبر نوانی ہمیں ڈیرے پر بیٹھنے کا کہتے رہے ، ہر بار رابطہ ہوتا تو کہتے کہ وہ آدھے گھنٹے میں پہنچنے والے ہیں ۔ شام پانچ بجے سے رات آٹھ بجے تک یہی کھیل چلتا رہا ۔ہمارے مخبر نے بتایا سعید اکبر نوانی فلاں گائوں میں کارنر میٹنگ کے لیے پہنچ رہے ہیں ۔ہم پوچھتے پوچھاتے وہاں پہنچے تو تلاوت ہو رہی تھی۔ جب کبھی ایسا جلسہ شروع ہو جائے تو زیادہ تر جلسہ ختم ہونے کا انتظار ہی کرنا پڑتا ہے۔ یہ انتظار اکثر بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے مگر اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آٹھ دس تقریروں سے پورے حلقے کی باریکیوں کو سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کبھی کبھار نرم مزاج امیدوار جلسہ یا کارنر میٹنگ روک کر پہلے ہمیں فارغ کر دیتا ہے اور ہماری کوشش بھی یہی ہوتی ہے ۔ سعید اکبر خان نوانی کو اسٹیج پر دیکھ کر میں سیدھا انہی کے پاس جا پہنچا۔ وہ ملے تو تپاک سے لیکن کہنے لگے اب تو میں بہت تھک گیا ہوں کل صبح کا رکھ لیں ۔ عرض کیا اس کے بعد ہمیں لیہ کے لیے نکلنا ہے۔ پھر بہانہ کرنے لگے جلسے کے بعد ڈیرے پر چلیں وہاں کرتے ہیں ۔ ہم اَڑے رہے کہ یہیں گفتگو کرنی ہے۔ کہنے لگے اچھا پھر جلسہ ختم ہونے کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر کریں گے۔ یہاں میں ایک وضاحت کرتا چلوں کہ کچھ امیدوار اصرار کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ عوام میں چلیں یا کسی کارنر میٹنگ میں یا پھر کسی جلسے میں جا کر انٹرویو کریں تا کہ ہم انکا شاندار جلسہ بھی دیکھ سکیں ۔ لیکن دوسری طرف کئی امیدوار ایسے ہیں جو عوامی اجتماع کے درمیان انٹرویو دینے سے گھبراتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ سخت سوالات کے اگر وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو عوام میں انہیں سبکی ہو گی اور ان کے ووٹ بینک پر منفی اثر پڑے گا۔ شاید یہی وجہ ہو گی کہ سعید اکبر خان نوانی نے حتی الامکان کوشش کی کہ انٹرویو عوام کے درمیان کھڑے ہو کر نہ دیا جائے ۔ خیر بادل نخواستہ ہم نے ان کا پورا جلسہ سنا اور سٹیج سے اترتے ہوئے انہیں گھیر لیا۔ سخت سوالوں کے جواب انہوں نے خندہ پیشانی سے دیئے۔میں نے انکا شکریہ ادا کیا تو شرارت میں انہوں نے مسکراتے ہوئے میری کمر اور پیٹ کی درمیانی جگہ پر زور دار چٹکی بھری گویا کہہ رہے ہوں آخر تم نے مجھے گھیر ہی لیا لیکن پھر بھی دیکھ لو میں تمہارے سوالوں کے جال میں نہیں آیا۔ (جاری ہے )