تین روز سے گھر کے کمرے میں مقید ہوں کوئی ملنے آتا ہے نہ میں آنے دیتاہوںتین وقت بیگم ہاتھوں میں حفاظتی دستانے اورمنہ پر ماسک لگائے ڈسپوزیبل برتنوں کے میں کھانا اور ناشتہ لے کر اس احتیاط سے آتی ہے کہ چھ فٹ سے کم کا فاصلہ حائل نہ ہو‘مجھے تیرہ جون کی صبح ٹوٹتے بدن اور ہلکے بخار کی جکڑ نے احساس دلادیا تھا کہ مختاریا گل ودھ گئی اے ۔۔۔ لیکن میں نے خود کو تسلی دی کہ رات یخ پانی پینے کی وجہ سے طبیعت خراب ہوئی ہے اور بخار کا سبب بھی وہی یخ بستہ پانی کا کٹورہ ہے ،ہلکا ہلکا بخار اور کاندھوں کمر میں دردو باکی جھپٹ کے احساس سے تکلیف دہ تو نہ تھا اس لئے چوبیس گھنٹے گزار لئے لیکن پھر صبح فیصلہ کیاکہ کورونا کا ٹیسٹ کروا ہی لینا چاہئے اب مسئلہ یہ کہ ٹیسٹ کہاں سے کروایا جائے ؟ سرکاری اسپتالوں کا تو کوئی پرسان حال نہیں وہاں جانا اور ٹیسٹ کروانا کسی تکلیف سے نہیں بلکہ اذیت سے گزرنے کا نام ہے نجی لیبارٹری جاتاہوں تو آٹھ نو ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں میڈیا جیسی بنجر زمین سے وابستہ محنت کش کے لئے اس وقت یہ آٹھ نو ہزار روپے اچھی خاصی رقم ہے میں نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے دوستوں سے رابطہ کیا اسلام آباد میں انکے ترجمان عبدالودود صاحب مدد کوآئے انہوںنے نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے تعاون سے رعائتی قیمت پر کورونا ٹیسٹ کرنیوالی ’’تیماردار ڈائیگنوسٹکس‘‘ لیبارٹری کابتایا یہاں اکیس سو روپے میں ٹیسٹ ہوگیاٹیسٹ کروا کر گھر پہنچا تو تھوڑی دیر میں دفتر کے ساتھی عدنان کا فون بھی آگیا اس نے خوفناک اطلاع دی کہ آٹھ روز پہلے پمز اسپتال والے ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آئی ہے اور اب اسے فون پر قرنطینہ ہونے کی ہدائت کی گئی ہے ۔ عدنان دفتر میں میرے ساتھ ہی بیٹھتا ہے اسکی رپورٹ مثبت آنے کا مطلب یہی تھا کہ ہمارے لئے بھی سچ میں’’گل ودھ گئی ہے ‘‘ او ر دوسرے روز یہی ہوا رپورٹ مثبت آئی جس کے بعدمیں نے اپنے آپکولیپ ٹاپ اور سیل فون کے ساتھ اایک کمرے میں قرنطینہ کر لیا کل اسی قرنطینہ میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے ٹوئٹس سے اطلاع ملی کہ اسلام آباد کے دو علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے کیوںکہ یہاں بھی وزیر صحت یاسمین راشد صاحبہ کے بقول ’’جاہل‘ رہتے ہیں جو اپنے جہل سے کونے کونے میں کورونا پھیلا رہے ہیں ۔ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو میں محنتی خاتون کے طور پر جانتا ہوں۔ انہوں نے زندہ دلان لاہور کوایک نیوز شو میںمشفقانہ غصے سے ڈانٹ کر اسپیشل مخلوق کہہ کر کافی تنقید اور ناراضگی سمیٹی ہے جس پر انہوں نے معافی بھی مانگی حالاں کہ میرے خیال میں معافی کی کوئی بات نہ تھی مجھے توان کی ڈانٹ میں کہیں تحقیر محسوس نہیں ہوئی مسلمہ حقیقت ہے کہ لاہور ی بادشاہ من موجی لوگ ہیں پینسٹھ کی جنگ میں سرحد پار سے اڑنے والے دشمن کے طیارے بھی انہیں گھروں میں نہیںرکھ سکے تھے یہ اپنی آنکھوں سے دشمن کے کرگسوں پر پاک فوج کے شاہینوں کو لپکتا دیکھنے کے لئے چھت پر چلے آتے تھے اب یہ کورونادیکھنے کے لئے گھروں سے باہر چہل قدمی کررہے ہیں تو کیا حیرت؟ ان معنوں میں پاکستان کے جغرافیئے میں ہر شہر ہی ’’لاہور‘‘ ہے کاش ہم ایسے من موجی بے پرواہ اور بے نیاز نہ ہوتے تھوڑے سے ’’ووہانی ‘‘ بھی ہوتے اور ہمارے حکمران بھی کچھ کچھ ’’چینی ‘‘ ہوتے تو شائد آج مختاربھی کورونا کا شکار نہ ہوتا،اس وقت کورونا وائرس کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کو متاثر کرچکا ہے ،تین ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں ہمارا صحت کا نظام ویسے ہی فالج زدہ ٹانگوں پر کھڑا تھا اب اس پر کورونا وائرس کے مریضوں کا بوجھ بھی آگیا ہے ہسپتال ،ڈاکٹر ، میڈیکل ہیلتھ ورکرز شدید دباؤ کاشکار ہیں اور دوسری جانب کورونا ہے کہ پھیلتا جارہا ہے یہ تو اوپر والے کا بڑا کرم ہے کہ یہاں شرح اموات کم ہے اور ہم پاکستانی ’’دم درودوں ‘‘ سے اور سنا مکی ،ادرک ،دار چینی کے قہووں سے ٹھیک ہورہے ہیں وگرنہ پاکستان بھی شائد اٹلی ہوچکا ہوتالیکن بات صرف صابر اور شاکر بننے سے نہیں بنے گی حکومت اسمارٹ لاک ڈاؤن،مخصوص ایام کا لاک ڈاؤن،مکمل لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ جانے کتنے لاک ڈاؤن نکال چکی ہے لیکن نہ نکالا تو چین کے شہر ووہان والا لاک ڈاؤن…میرے دوست رفیق آفریدی کا سسرال ووہان سے ہے اس نے بتایاکہ میرے ساس سسر نے 53دن بعد گلی میں قدم رکھا تھا ہمیںبہت پہلے ہی اپنی سرحدیں تائیوان ،ویت نام اور میانمار کی طرح سیل کرلینی چاہئے تھیںپھر ہم اسمارٹ لاک ڈاؤن کرتے یاہینڈسم لاک ڈاؤن بھلے کہیں گورجیس لاک ڈاؤن کا اعلامیہ نکال دیتے بات سنبھل جاتی بات بگڑی حکومت میں بیٹھی ان عالی دماغ ہستیوں سے جو گومگو کا شکار رہے اب بھی حکومت نرم گرم پولے پولے لاک ڈاؤن کے چکر میں ہے اس سے بات بنے گی نہیںجن علاقوں میں کوروناپہنچ چکا ہے وہاں’’ووہانی لاک ڈاؤن ‘‘ ہونا چاہئے ساتھ ہی نجی اسپتالوں،لیبارٹریوں کو رعائتی نرخوں پر کوروناکے ٹیسٹ کروانے کا پابند کیا جائے ،نجی اسپتالوں سمیت تمام اسپتالوں کی استعداد کا جائزہ لے کروہاں مریض بھیجے جائیں اورسب سے بڑھ کر بے شرم بے حیاء اور غیرت سے عاری دولت کے نشئی قارون صفت ذخیرہ فروشوں کو گرفتارکیا جانا چاہئے غضب خدا جس دوا کے بار ے میںہلکا سا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی کام آسکے گی وہ سیاہ دل کے مالک سیٹھ اگلے دن مارکیٹ سے غائب کردیتے ہیںکاش ایسے سفاک لوگوں کے ساتھ چینی ماڈل کے تحت کارروائی ہوسکتی انہیں سرعام دیوار کے ساتھ بٹھایا جاتااوررائفل کی گولی سے پیشانی میں چھید کرکے لواحقین سے کہا جاتاکہ سرکار کے خزآنے میں گولی کے پیسے جمع کرواکر لاش لے جاؤ… یقین کیجئے سب سیدھے ہوجاتے اورپھر کوئی افضل ندیم چن کسی مختاریئے سے یہ نہ کہتا کہ مختیاریا گل ودھ گئی اے !