وزیر اعلی پنجاب تاریخ ساز ترقیاتی منصوبوں کے جِلو میں آگے بڑھتے اور پھَلتے ، پھُولتے جنوبی پنجاب یا" نئے جنوبی پنجاب" سے میری دلچسپی کاا یک اہم اور بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ اس کی مَٹی سے میرے خونی ، خاندانی اور تہذہبی رشتے وابستہ بلکہ پیوستہ ہیں۔ میرے--- جدِ اعلیٰ حضرت سیّدجلال الدین سُرخ پوش بخاریؒ،ـ" اوچ شریف"۔۔ جن سے میرا شجرۂ نسب23 واسطو ں سے متصل ہوتا اور باب مدینتہُ العلم حضرت علی المر تضیٰؓ سے ہوتا ہوا، تاجدارِختمی مرتبت ﷺ تک 41 پشتوں اور نسبتوں سے اِ تصال پا تا ہے، برصغیر میں "خانوادۃ بخاریہ" کے سرخیل، گوہرِ تابدار اور نیّرِ تاباں تھے، آپؒ کے سبب اس خطہ میں "بخاری سادات" کو عروج، عظمت اور بر کت نصیب ہوئی۔"بخارا" وسط ایشیا میں اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکز --- حضرت سیّد جلال الدین سرُخ بخاری ؒ کے اجداد کے سبب علوم و معارف کا منبع اور حکمت و معرفت کا مسکن بھی بنا۔ یہیں پر سیّد علی ابو الموائد کے ہاں سیّد جلال الدین سُرخ بخاری ؒ کی ولادت ہوئی ، اور یہیں پر حضرت بہاء الدین زکریا ملتانؒ--- جو حصولِ علم کے سلسلے میں بخارا میں سکونت فرما تھے، سے دوستانہ مراسم استوار ہوئے ، سادات اپنی سیادت و نجابت اور طریقت و تصّوف کے سبب جہاں مرجع خلائق ہوتے ہیں ،وہیں حاسدین کے حسد اور کدورت کا نشانہ بھی بنتے ہیں،حالا نکہ یہ "حسد " صرف نیکیوں کو ہی جلا کر خاکِستر نہیں کرتا، بلکہ انسان کے قلب و نظر کو بھی تاریک کردیتا ہے ۔ بلکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :ـ"حسد"انسان کے دین کا سر ے سے صفایا کردیتا اور اس کے دیگر مضر اثرات میں سے اہم ترین یہ بھی ہے کہ’’ حاسد‘‘ذِلت اور پستی کی گہری کھائیوں میں گرتا اور طبیعت میں بے صبری اور ناشکری کے غلبے تلے دبد تا چلا جاتا ہے،اور پھر یہ سب کچھ اگر کسی صحیح النسب سیّد کے حوالے سے ہو، تو اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلویؒ کا فتاوٰی رضویہ ، جلد دوم، میں اس پر باقاعدہ فتوٰی صادر ہے ، جس کے مطابق :"سُنِّی سیِّد" کی بے توقیری سخت حرام ہے،آپ ؒ مزید تحریر فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو "سیّد" کی تحقیر بوجہ سیادت کرے وہ مطلقاً ہے، اس کے پیچھے نماز محض باطل ورنہ مکروہ ، اور جو سیّد مشہور ہو ، اگر چہ واقعیت نہ معلوم ہو، اسے بلا دلیل شرعی کہہ دینا کہ یہ صحیح النسب نہیں ، اگر شرائط قذف کا جامع ہے ، تو صاف کبیرہ ہے، اور ایسا کہنے والا، اَ سِّی کوڑوں کا سزاوار ، اور اس کی گواہی ہمیشہ کے لیے مردود، اور اگر شرط قذف نہ ہو تو بلا وجہ شرعی، ایذائے مُسلم ہے ، اور بلا وجہ شرعی ایذائے مُسلم"حرام قطعی"۔بلکہ اعلیٰ حضرت ؒ نے اپنی’’ جامعُ الا حادیث ‘‘میں فضائل اہل ِ بیت کے باب میں یہ حدیث بھی درج کی ہے ، جس میں نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:جو میری عترت وانصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین حال سے خالی نہیں ، یا تومنا فق ہے، یا حرامی ، یا حیضی بچہ۔ بہر حال ---حالات کی ایسی ہی ناہمواری اور عدم موافقت کا سامنا بخار ا میں "ساداتِ بخارا" کو بھی ہوا، اور پھر اسی اثنا میں تاتاری یلغار نے حالات کو اور زیادہ نا مساعد بنادیا ، چنانچہ حضرت سُرخ پوش بخاریؒ ، بخارا سے مشہد اور سندھ سے ہوتے ہوئے ملتان میں اپنے ہمدمِ دیرینہ حضرت بہا ء الدین زکریا ملتانیؒ کے ہاں قیام پذیر ہوئے ، جو کہ اُس وقت ، اس خطّہ میں ـ" سہروردی" سلسلہ طریقت کی سب سے اہم اور کلیدی شخصیت تھے ، پروفیسر آرنلڈ کے مطابق، آپؒ ؒملتان سے ہی 1244 ء میں اوچ منتقل ہوئے ، اور یوں اوچ آپؒ کے فیضان کے سبب، نسب کے اعتبار سے بخاری اورطریقت کے حوالے سے سہروردی نسبتوں کا امین قرار پایا۔ دوروز قبل ، میں بھی ملتان میں تھا، جہاں حضرت بہا ء الدین زکریا ملتانی ؒ کے سالانہ عرس کے امور زیر انتظام ہیں۔سیکرٹری اوقات ڈاکٹر ارشاد احمد از خودبھی معاملات کو مانیٹر کر رہے ہیں ، بدھ کو صبح 10بجے رسم غسل اور چادر پوشی سے ،تین روزہ عرس تقریبات کا آغاز ہو گا۔ آپ ؒ کے وصال کو 781 سال ہونے کو ہیں، مگر آپؒ کے فیضان کی تازگی ، آج بھی اُسی طرح برقرار ہے ۔ آپؒ کے روضۂ اقدس کی اس عظیم الشان عمارت کا" قُبہَّ ابیض"(سفید گنبد) جہاں ناصر الدین محمود، غیاث الدین تغلق، سلطان محمد تغلق اور فیروز شاہ سے لے کر دارا لشکوہ اور اورنگ زیب تک --- نہ جانے کتنے قہر مان تاجدار--- اس بارگاہ کی حاضری کا ا عزاز پاچکے اور نہ معلوم کتنے اور پائیں گے ۔ جغرافیے مختلف ہوتے رہے ، صدیاں بیت گئیں، زمانے بدلتے رہے ، حکومتیں کروٹیں لیتی رہیں، لیکن یہ" قُبہَّ ابیض" اسی شان شوکت سے نمایاں، معروف اور معتبر--- عقیدتوں اور ارادتوں کے خراج وصول کرتا رہا، اس کے پہلو میں--- ہلاد مندر کے آثار ابھی تک موجود ہیں، جس کے سامنے آپؒ نے اپنی عظیم درسگاہ" جامعہ بہا ئیہ" کی بنیادی استوار کیں، جس کا شمار ا ُس عہد کی عظیم ترین جامعات میں ہوتا تھا ۔ سلا سلِ طریقت میں سے اوّلین سلسلہ، جس کو بر صغیر میں تبلیغ ِ دین اور اشاعتِ اسلام کا اعزاز میسر آیا، وہ " سلسلہ چشتیہ" ہے ، جس کے سرخیل خواجہ خواجگان، خواجہ معین الدین اجمیریؒ تھے، جو لاہور، ملتان ، اور دہلی سے ہوتے ہوئے اجمیر میں فروکش ہوئے۔ چشتیہ بزرگوں کی تشریف آوری کے فوراً بعد ، سہر وردیوں کی آمد ہوئی ، جنہوں نے ملتان کو اپنا مرکز ومسکن بنایا ، جن کے مورثِ اعلیٰ حضرت خواجہ بہا ء الدین زکریا ملتانیؒ تھے۔سہر وردی سلسلے کے بانی، حضرت الشیخ عبد القا ہر شہاب الدین سہروردیؒ کی قیام گاہ عراق میں ہمدان اور زنجان کے درمیان " سہر ورد" نامی گائوں میں تھی،جہاں آپ کی ولادت 542 ھ میں ہوئی ، آپ کی تصنیفِ لطیف" عوارفُ ا لمعارفِ" کو سلاسلِ طریقت میں "نصابی کتاب" کا درجہ میسر رہا۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ اپنے خاص تلامذہ اور مریدین کو ، اسے سبقاً سبقاً پڑ ھایا کرتے تھے۔ حضرت بہا ء الدین زکریا ملتانیؒ، بخاراسے ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد، حضرت الشیخ شھاب الدین سہروردیؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر ، اُ ن کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوئے اور چند ہی دنوں میں"خرقہ ٔ خلافت " سے سرفراز ہوئے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ نے آپ کے حوالے سے سترہ یوم کی تصریح فرماتے ہوئے ،اس مختصر اور محدود مدت میں ، باطنی نعمتوں سے سرفرازی کا تذکرہ فرمایا ،طویل عرصے سے ریاضتوں میں منہمک خانقاہ کے دیگر درویش اس اعزاز پر رشک میں مبتلا ہوئے ، اور اپنی محرومی کا شکوہ کرنے لگے، حضرت الشیخ سہروردیؒ نے فرمایا:" تمہاری مثال گیلی لکڑیوں کی سی تھی، جنہیں آگ مشکل سے لگتی ہے، بہاء الدین ؒ خشک لکڑی کی طرح تھا جن پر معرفت کی آتش فوراً اثر پذیر ہوئی----"خلافت و اجازت کا اعزاز پا نے کے بعد حضرت الشیخؒ ؒ کی اجازت سے آپ ؒ کا ملتان میں ورود ہوا۔ ملتان، جو اس وقت صاحبان علم و فضل کا مرکز تھا،کی طرف سے آپؒ کی خدمت میں پانی سے لبریز پیالہ بھجوایاگیا، جس سے مرادیہ تھی کہ یہ شہر آپ کی آمد سے قبل ہی صاحبانِ کشف و کرامات اور اہالیان علم و فن سے معمور ہے۔ حضرت الشیخ بہاء الدین زکریاؒ اس لطیف رمز و کنایہ کو سمجھ گئے اور آپ نے پیالہ کی سطح پہ ایک پھول رکھ کر ، پیالہ واپس کردیا، اس سے مراد یہ تھی کہ ان کا قیام اس شہر میں اس طرح ہوگا جس طرح سطحِ آب پر پھول۔ اکابرین شہر آپؒ کے اس حکمت مآ ب جواب سے متحیّر اور مطیع ہوگئے۔