وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار قومی اسمبلی میں نئے مالی سال 24-2023 کے لیے 144 کھرب 60 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے تاریخی 1150 ارب روپے جبکہ ملکی دفاع کے لیے 1804 ارب روپے مختص اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ خوش آئندہے مگر پرائیویٹ ملازمین خصوصاً بیروزگار نوجوانوں کیلئے کچھ نہیں سوچا گیا۔ سرکاری ملازمین کو تو پھر بھی کچھ نہ کچھ سہارا ملا ہوا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مہنگائی کے مقابلے میں عام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ کافی ہیں مگر اُن کو ایک مستقل روزگار حاصل ہے۔ ان سے پوچھئے جن کے پاس روزگار نہیں، ایک ایک گھر میں پانچ پانچ نوجوان بے کار اور بیروزگار ہیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ گزشتہ دور میں ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ ہوا مگر اتنی ہی تعداد میں لوگ بے گھر اور بیروزگار ہوئے۔ پی ڈی ایم اپنے جلسوں میں اس بات کو ایشو کے طور پر لیتی رہی مگر جب یہ خود برسراقتدار آئے ہیں تو گزشتہ دور سے بڑھ کر مہنگائی میں اضافہ کر دیا اور بیروزگاری اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ جس سے عام آدمی بہت تنگ ہے اور اس کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ غربت اور بیروزگاری کے باعث سٹریٹ کرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ اتحادی حکومت کا موجودہ دور میں آخری بجٹ ہے۔ اس میں محروم اور پسماندہ طبقے کی بہتری کیلئے کوئی اقدامات نظر نہیں آئے۔ ڈالر روزبروز اوپر جا رہا ہے۔جس سے زر مبادلہ کے ذخائر تنزلیوں کا شکار ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔ ترسیلات زر میں بہتری نہیں آئی۔ درآمدات و برآمدات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ تفاوت مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ معیشت پر غیر ملکی قرضوں کے بوجھ نے معاشی طو رپر پاکستان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ گردشی قرضے تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ سود کی ادائیگیوں کیلئے بھی قرض لئے جاتے ہیں۔ ایف بی آر کے معاملات درست نہیں ہو سکے اور نہ ہی کرپشن پر قابو پایا جا سکا ہے۔ تاجر ایف بی آر کے افسران کو کروڑوں کی رشوت دے دیتے ہیں مگر خزانے میں اتنا ٹیکس جمع کرانا گوارہ نہیں کرتے۔ یہ صورتحال کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے موجودہ وفاقی بجٹ کو ناکام ترین بجٹ قرار دیا ہے حالانکہ اُن کا تعلق بھی (ن) لیگ سے ہے۔ ان کے بارے میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ وزارت خزانہ سے سبکدوشی کا غصہ نکال رہے ہیں مگر ان کے دلائل کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ قرضوں کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان نے قرض اور سود کی مد میں 52 سو ارب سے زائد ادا کرنے ہیں۔ یہ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ پاکستان اپنا پورا بجٹ جن میں ملازمین کی تنخواہیں، پنشنز اور سبسڈی وغیرہ شامل ہیں ادا کرے تو پھر بھی یہ قرض نہیں اترے گا۔ آگے صورتحال خراب نظر آرہی ہے۔ حکمرانوں کو اخراجات کم کرنا ہوں گے، کرپشن پر قابو پانا ہو گا، برآمدات بڑھانے کے ساتھ ٹیکس کے نظام کو درست کرنا ہو گا۔ اس وقت ملکی معیشت قرض لے کر قرض کی ادائیگیوں پر چل رہی ہے۔ مگر یہ کب تک؟ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا بہت بڑا سرمایہ اور پیسہ بیرونی بینکوں میں موجود ہے۔ اگر یہ صرف اتنی مہربانی کریں کہ یہ سرمایہ بیرونی بینکوں کی بجائے پاکستان شفٹ کر دیں تب بھی معیشت کو بہت سہارا مل سکتا ہے۔ پچھلے دنوں خبر شائع ہوئی کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سابق صدر آصف زرداری سے کہا ہے کہ مجھے پچاس ارب ڈالر دیں میں نے معیشت ٹھیک کرنی ہے۔ اس بات کو مذاق کی بجائے سنجیدگی سے لے لیا جائے اور اسحاق ڈار اس کا آغاز خود اپنی ذات سے کریں اور میاں نوازشریف، میاں شہباز شریف اور دیگر ساتھیوں سے بھی پیسہ واپس پاکستان منگوا لیں تو بہت بہتری ہو سکتی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ کا شمار پسماندہ طبقات میں آتا ہے مگر یہ جان کر افسوس ہوا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ عمران خان کے احساس پروگرام میں غریبوں کو ملنے والا بارہ ہزار روپیہ سہارے کا باعث تھا۔ اصولی طور پر تو عام آدمی کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ضروری ہے۔ برسرروزگار بنانا ضروری ہے۔ اس کیلئے صنعتی ترقی چاہئے مگر جہاں تک مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو محروم طبقات کی خبر گیری ضروری ہے۔ بجٹ میں تعلیم، صحت اور روزگار کیلئے بہت تھوڑے پیسے رکھے گئے ہیں۔ محروم اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے کوئی رقم نہیں رکھی گئی۔ پنجاب سندھ اور بلوچستان کے لوگ گزشتہ سال کے سیلاب کا عذاب اب تک بھگت رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے موجودہ وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا اور بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کیا مگر وسیب خاموش ہے۔ وسیب کے ارکان اسمبلی خاموش ہیں۔مجھے یقین ہے کہ وسیب سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی اکثریت نے بجٹ کاپی پڑھی ہی نہیں ہو گی۔ بجٹ کو لفظوں کا گورکھ دھندہ اور الفاظ کا ہیر پھیر قرار دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی نیا نہیں ہر بجٹ ایسا ہوتا ہے۔ اس بجٹ کو نہ تو انقلابی قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جدید سوچ کا آئینہ دار۔ بجٹ میں درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کیلئے 6 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ہر سال رقم رکھی جاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں جاتی ہے؟ کاشتکار کو تو سستی کھاد میسر نہیں آتی۔ افسوس یہ ہے کہ زراعت کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ دفاع کیلئے 1804 ارب جبکہ تعلیم کیلئے صرف 82 ارب ، ترقیاتی کاموں کیلئے 1150 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صحت کیلئے محض 26 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ نا کافی ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کیلئے محض 65 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کسی نئی یونیورسٹی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ بجٹ میں سول انتظامیہ کے اخرجات کیلئے 714 ارب روپے رکھے گئے ہیں جسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔ حکومت نے صحافیوں اور فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کا اجراء کیا ہے جو کہ اچھی بات ہے مگر اس کی شفافیت ضروری ہے۔