جمعۃ المبارک کے بعض اخبارات میں ایک تصویر نظر سے گزری۔ اس تصویر کے نیچے اگر کوئی کیپشن نہ ہو تو پھر آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ پاکستان کے کس دور کی تصویر ہے۔ تصویر میں پنجاب پولیس احتجاج کرنے والے مجمعے پر وحشیانہ انداز میں لاٹھیاں اور ڈنڈے برسا رہی ہے۔ ایک شخص تقریباً بے ہوش نیچے گرا پڑا ہے اور اوپر سے پنجاب پولیس کے شیر دل تین چار جوان اس پر بے تحاشا لاٹھیاں برسا رہے ہیں۔ اگر تصویر کے نیچے کچھ نہ لکھا ہو تو آپ کے لئے فیصلہ کرنا تقریباً ناممکن ہو گا کہ یہ ایوبی دور ہے یا جنرل (ر) یحییٰ خان کا عبوری دور ہے یا پھر ذوالفقار علی بھٹو کا جمہوری دور ہے۔ یا جنرل ضیاء الحق کا اسلامی دوریا پھر شریفوں کا کوئی دور حکومت ہے۔ شرفاء کے آخری دور حکومت میں یہی پولیس ڈنڈا برداری سے آگے گولیاں برسانے تک جا پہنچی تھی۔ تاہم شاید آپ کا ذہن نئے پاکستان کے دور حکومت کی طرف نہیں جائے گا کیونکہ یہاں نئے نئے دعوے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیجئے کہ نیا ہو یا پرانا پاکستان ہماری سوچ ہماری اپروچ وہی پرانی ہے۔ جی ہاں !یہ تصویر گزشتہ روز بروز جمعرات نیب عدالت میں میاں شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر احتجاج کرنے والے ن لیگی کارکنوں اور اس پنجاب پولیس کے ان جوانوں کی ہے جن کو جگر کا خون دے دے کر شرفاء کی حکومتوں نے پالا پوسا تھا۔ شریف فیملی یا مسلم لیگ ن اور لیگی کارکنوں کے لئے تو یہ مکافات عمل کی ہی ایک ناخوشگوار جھلک ہے، مگر نئے اور پرانے ہر طرح کے پاکستان اور اس کے رکھوالوں کے لئے ایک سوالیہ بلکہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تو نہ جانے کس جرم‘ بے گناہی کی پاداش میں وزارت اعلیٰ کے منصب کے لئے دھر لئے گئے ہیں۔ لہٰذا ان سے تو کوئی سوال و جواب نہیں بنتا اور اگر آپ پوچھ بھی لیں گے تو وہاں سے آپ کے ہر سوال کا ایک ہی جواب ملے گا‘ایک چپ تے سو سکھ۔ البتہ ان کے بعض مشیر بہت سمجھدار ہیں۔ مثلاً ان کے ایک مشیر اور ترجمان ڈاکٹر شہباز گل ہیں ۔ وہ معاملات کو الجھانے پر نہیں سلجھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے مرد خود بیں و جہاں بیں کی پنجاب حکومت میں موجودگی کے باوجود اگر پنجاب پولیس وہی کچھ کرے جو پچھلے ادوار میں کرتی آئی ہے تو پھر ہم دنیا کو کیسے یقین دلائیں گے کہ تبدیلی آ گئی ہے۔ 1973ء کے دستور میں پولیس کو صوبائی معاملہ قرار دیا گیا۔ ہر صوبہ اپنی پولیس کو بنانے اور چلانے میں آزاد ہے۔ تاہم اعلیٰ افسران کی تقرری وفاق کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں مجموعی طور پر اور پنجاب میں خصوصی طور پر بھی پولیس کے معاملات و انتظامات میں اصلاحات لانے کے لئے چار پانچ بار بڑے پیمانے کی پولیس ریفارمز کا اعلان ہو چکا ہے مگر ان اصلاحات کو اول تو نافذ نہیں کیا گیا اور اگر کیا بھی گیا ہے تو نیم دلی اور بے دلی سے۔ پاکستان میں 1947ء سے لے کر اب تک پولیس کی اصلاح کے لئے 21رپورٹیں اور سفارشات پیش کی جا چکی ہیں مگر حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد کسی رپورٹ یا اصلاحی پروگرام پر نہیں ہوا۔1951ء سے لے کر 1997ء تک باقاعدہ چار بار پولیس ریفارمز آئیں اور 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پولیس اصلاحات کے لئے باقاعدہ کمشن قائم کیا گیا تھا جس نے تقریباً تین سال کی محنت شاقہ کے بعد اصلاحات کا پروگرام پیش کیا اس تفصیلی اصلاحی پروگرام کے ذریعے نو آبادیاتی دور کے پولیس ایکٹ 1861ء کو پولیس آرڈر 2002ء سے بدل دیا گیا۔ پہلی بار پاکستان میں جمہوری انداز کا پروگرام لایا گیا۔ اس پروگرام کے تحت پولیس کو خالصتاً پروفیشنل بنیادوں پر استوار کرنے کے اقدامات کئے گئے۔ پولیس آرڈر 2002ء کے تحت پولیس کو جمہوری ملکوں کی پولیس کی طرح جوابدہ بنایا گیا۔ اس کی من مانی کا راستہ روکنے کے دل خوش کن اقدامات بھی تجویز کئے گئے تھے مگر پولیس ریفارمز کو لانے والوں نے خود بھی ان پر عمل نہیں کیا اور عملاً صورت حال جوں کی توں ہے اور آج ہم وہاں ہی کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو صوبوں نے 2002ء کے پولیس آرڈر کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 2002ء کا اصلاحی پولیس آرڈر نہیں 1861ء کا پولیس ایکٹ نافذ ہے۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو یہاں کئی ترامیم کے ساتھ برائے نام پولیس آرڈر2002ء نافذ ہے اور خیبر پختونخواہ نے 2017ء میں اپنا پولیس ایکٹ وہاں کی صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کے نافذ کیا ہے تاہم ان گرائونڈ سارے پاکستان میں 1861ء کا پولیس ایکٹ ہی نافذ ہے اور جہاں تک پولیس کلچر کا تعلق ہے تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہی تو وہ سبب ہے جس کی بناء پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پولیس ریفارمز کمیٹی تشکیل دی ہے۔ پولیس اصلاحات لانے کے لئے ہمارے بالعموم جو طریقہ ماضی میں استعمال ہوتا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اور اس دور کے حکمران مل کر پہلے سے موجود پولیس قواعد و ضوابط میں کچھ کتربیونت کرتے ہیں جنہیں پولیس اصلاحات کا نام دیا جاتا ہے۔ یقینا چیف جسٹس صاحب کی قائم کردہ پولیس ریفارمز کمیٹی اصلاحات کا ایک پروفیشنل اور جدید پروگرام ہی لائے گی مگر اسے نافذ تو حکمرانوں نے ہی کرنا ہے اور ان کے مفادات کی مٹھی میں آ کر سونا بھی مٹی ہو جاتا ہے۔ ان اصلاحات کے آنے سے پہلے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم ریفارمز کے مختلف پروگراموں کو ٹکے ٹوکری کیونکر کرتے رہے ہیں، اس کے کئی اسباب ہیں، جن میں سے سب سے پہلا اور مرکزی سبب ہر حکومت چاہے وہ سول ہو یا فوجی اس کی بنیادی ترجیح اپنا اقتدار اس اقتدار کا رعب و دبدبہ اور اقتدار کا دوام ہوتا ہے۔ چونکہ یہ حکومتیں اپنے پر کوئی قدغن لگانے یا ان پر کسی طرح کا کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں ہوتیں اس لئے وہ اپنی اصلاحات کے راستے میں خود سدّ سکندری بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ پولیس ریفارمز کے عملی نفاذ میں یقینا مالی مشکلات بھی ایک بہت بڑا سبب ہیں مگر سو باتوں کی ایک بات کہ سیاست دانوں کا سچا عزم و ارادہ موجود ہو تو سب کچھ نافذ ہو سکتا ہے۔ پنجاب موٹر وے پولیس بھی تو اسی سرزمین پر ہی ہے اس کے انداز و اطوار دوسری پولیس سے بالکل مختلف ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اوپر والوں کو بھی راہ راست دکھائے۔ رب ذوالجلال کا ارشاد ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے۔ جناب عمران خان غور فرمائیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ نئے پاکستان میں پرانی پولیس نہ جچتی ہے نہ سجتی ہے۔