الیکشن کمیشن کے فیصلے نے تین نئے پنڈورا باکس کھول دیئے ہیں۔ پولیٹیکل پارٹنر 2002ء کے تحت جو مینڈیٹ بنتا تھا، اس میں رقم ضبطگی کی شق لاگو ہوتی ہے۔ آخری پیراگراف میں یہ کہا گیا ہے کہ کیوں نہ غیر قانونی ذرائع سے لی گئی رقم ضبط کرلی جائے۔ اس کے علاوہ الیکشن کمشنر نے اپنے آفس کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ اس کے علاوہ بھی کوئی کارروائی بنتی ہے تو وہ بھی کی جائے۔ پی ٹی آئی پر آرٹیکل 17 کے تحت بھی کارروائی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس معاملے کو اس فیصلے سے یکسر ختم بھی نہیں کیا گیا۔ بلکہ اپنے آفس کے لئے یہ راستہ کھلا رکھا ہے کہ اگر اس سلسلے میں جو بھی بے ضابطگی ہوئی ہے اس پر مزید ایکشن لیا جاسکتا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آرٹیکل 17 کے تحت الیکشن کمیشن نے جو پنڈورا باکس کھولا ہے اس سے ای سی نے گیند وفاقی حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ یہ بڑا نازک معاملہ ہے‘ قانونی اعتبار سے اس آرٹیکل کے تحت اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس حوالے سے کوئی جماعت ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف کام کررہی ہے تو اسے اس کا ڈیکلیریشن پندرہ دن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھیجنا ہوگا۔ اگر واقعی وفاقی حکومت اسے سپریم کورٹ لے کر جاتی ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ فنڈز ملکی سلامتی کیخلاف استعمال ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور پنڈورا باکس کھولا گیا ہے وہ عمران خان کے بیان حلفی کو ان کی اہلیت کے حوالے سے دیکھنے کا بھی کھول دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس میں واضح طور پر کہا ہے کہ 2008ء سے 2009ء اور 2012ء سے 2013ء تک جو فارم ون پیش کئے ہیں وہ درست نہیں ہیں اور انہوں نے جو بیان حلفی جمع کرائے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ عمران خان نے آرٹیکل 2002ء پارٹی آرڈر کے تحت اپنے دستخطوں کے ساتھ جمع کرائے تھے۔ اس میں عمران نے حلفیہ کہا تھا کہ ان کی پارٹی نے اس آرٹیکل اور ضابطوں کے برخلاف کوئی ممنوعہ فنڈنگ نہیں لی۔ اس کے ساتھ اگر ہم ایسے تمام کوائف جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے اس میں نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو کے دستخط نظر نہیں آئیں گے‘ جبکہ یہ ذمہ داری دیگر عہدیداران کو سونپی گئی ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایسے کوائف جمع کرائیں‘ کیونکہ عمران خان اس حوالے سے خود اپنے دستخط کے ساتھ ہر سال یہ کوائف جمع کراتے رہے ہیں‘ اس لئے ضروری نہیں کہ اس کیلئے کوئی سیاسی اکابر ہی ان کیخلاف یہ نکتہ عدالت میں اٹھائے‘ بلکہ کوئی عام شخص بھی اس حوالے سے یہ بات کہہ سکتا ہے‘ کیونکہ یہ خان صاحب کے دستخطوں سے جمع ہوئی ہے‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خان صاحب اس بات کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں کہ وہ جو کچھ جمع کرارہے ہیں وہ اس بیان کی گئی تفصیلات کے خود ذمہ دار ہیں۔ اس لئے فیصلے کے مطابق عمران خان کا بیان حلفی غلط ثابت ہورہا ہے۔ اس لئے کوئی بھی شخص عمران خان کے خلاف یہ بیان لیکر جاسکتا ہے کہ عمران نے غلط بیانی سے کام لیا‘ اس اعتبار سے وہ امین اور صادق نہیں رہے۔ اس نکتے کو کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے خود بھی سیکشن 6 کے تحت جو فیصلہ کیا ہے وہ یہاں ختم نہیں کردیا‘ بلکہ اس کی کارروائی آگے چلے گی اور اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں الیکشن کمیشن نے پارٹی کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ اس سے پہلے ان پر ممنوعہ اور فارن فنڈنگ کے الزامات لگا کرتے تھے۔ آج الیکشن کمیشن نے اپنے تئیں یہ طے کرنے کے بعد کہ جی ہاں آپ نے فارن فنڈنگ لی ہے‘ باقاعدہ کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے آفس سے کہا ہے کہ اگر اس کے اثرات اور کسی طرف بھی نظر آتے ہیں تو وہاں بھی کارروائی کی جائے۔ اس فیصلے کی ایک کاپی الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو بھجوانے کی جو بات کی ہے اس سے یہ نظر آتا ہے کہ وفاقی حکومت کیلئے باقاعدہ ایک گراؤنڈ بن گیا ہے کہ اگر وہ سمجھتی ہے تو اس کو آگے بڑھاسکتی ہے۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی سمجھتی تھی کہ سابق مسلم لیگی ایم این اے حنیف عباسی کے کیس کا فیصلہ ان کیلئے ایک بڑی ڈھال ہے۔ کیونکہ حنیف عباسی کیس بھی سپریم کورٹ کی تین رکنی ٹیم نے اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں قرار دیا تھا کہ فارن فنڈنگ کا معاملہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ یہ معاملہ وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور وفاقی حکومت ایسے معاملات اپنی صوابدید کے مطابق انہیں سپریم کورٹ کو بھجواتی ہے۔ یہ بات تو اس وقت الیکشن کمیشن پر واضح ہوگئی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے سیکشن 6 جو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت جو فیصلہ سنایا ہے اس میں الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کیلئے ایک گراؤنڈ بھی بنادی ہے‘ بلکہ اس میں انہوں نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے یہ کہہ کر کہ عمران خان نے 2008ء سے 2013ء تک جو دستاویزات جمع کرائی ہیں وہ درست نہیں ہیں‘ کیونکہ عمران خان کا کلیم یہ تھا کہ انہوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ نہیں لی‘ وہ تمام بیانات غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ اس لئے فیصلے کے بعد فواد چوہدری اور فرخ حبیب یہ بات کہہ رہے تھے کہ یہ فارن فنڈنگ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ہے‘ لیکن جو فیصلہ موجود ہے اس میں فارن فنڈنگ خواہ امریکہ‘ برطانیہ یا کسی اور ملک سے ہو یہ ممنوعہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے یہ فنڈنگ حکومتی نہیں بلکہ انفرادی طور پر کی گئی ہے۔ اس میں اسی لئے الیکشن کمیشن نے اپنے آپ کو آرٹیکل 6 کے تحت رکھا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے یہ معاملہ طے کرکے اور اسے صحیح گردان کر یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیج دیا ہے کہ وہ اس پر جو کارروائی کرنا چاہے اسے اگلے فورمز میں بڑھاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں اگر ذرا بڑے کینوس پر دیکھیں تو یہ نہیں کہ الیکشن کمیشن اس پر کارروائی نہیں کرسکتا بلکہ وہ اس کا جائزہ لے سکتا ہے۔ ہاں کارروائی نہیں کرسکتا‘ اس لئے انہوں نے یہ ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر ڈال دی اور بالآخر یہ فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جانا ہے۔ اسی لئے الیکشن کمیشن نے اس فنڈنگ کی ضبطگی تک خود کو رکھا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے کوئی براہ راست کارروائی نہیں کی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ معاملات صرف ملکی سطح تک رہیں گے کیونکہ اس میں فنڈنگ والی کمپنیوں کا تعلق بیرون ملک سے ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ان معاملات کا اطلاق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر بھی ہوگا۔ اس میں اہم بات یہ ہے یہاں پر جو رولز لگائے گئے ہیں، اس میں ایک نمایاں اور قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام دستاویزات خان صاحب نے اپنے دستخطوں کے ساتھ جمع کرائے ہیں‘ جبکہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی جب سالانہ یہ گوشوارے الیکشن کمیشن میں جمع کراتے ہیں تو اس میں براہ راست ذمہ داری پارٹی کی قیادت نہیں بلکہ دیگر عہدیداران جمع کراتے ہیں۔ یہی نکتہ اہم ہے اور یہی فرق ڈالتا ہے کہ تحریک انصاف اور باقی جماعتوں کے مابین کیسز میں کیونکہ ان دونوں بڑی جماعتوں کے فارن فنڈنگ کا کیس بھی الیکشن کمیشن کے زیر نظر ہے اور تحریک انصاف اسی پر فیصلہ سنانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ (جاری ہے)