امریکی صدر جارج ہربرٹ بش نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام کو غنچہ دیا تھا کہ Read my lips no new taxes لیکن امریکی معیشت شدید کساد بازاری کا شکار تھی اور ٹیکس لگتے رہے۔ بش دور میں امریکی فوج نے1992ء میں کامیاب یلغار کر کے عراق کے آمر مطلق صدام حسین کو کویت سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت اس بڑی فوجی کامیابی کے نشے سے سرشار بش کو یقین تھا کہ وہ آئندہ صدارتی انتخابات میں مدمقابل کو چاروں شانے چت کر دیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس اوروہ جنگی میدان میں فاتح ٹھہرنے کے باوجود کمزور معیشت کی وجہ سے بری طرح الیکشن ہار گئے۔ اس تناظر میں الیکشن جیتنے کے بعد بل کلنٹن نے اپنا انتخابی سلوگن ’اوبے وقوف اصل چیز معیشت ہےIts the economy stupid ‘دہرایا۔ یہ اب ایک محاورے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہی حال نئے پاکستان میں اقتصادیات کے بارے میں حکومتی رویے کا ہے، وعدے تو بہت کئے جا رہے ہیں لیکن معیشت کے شعبے میں تقریباً سبھی اقدامات الٹی گنگا بہا رہے ہیں۔ 2018ء پاکستان کی اقتصادیات کے لیے کو ئی اچھا سال ثابت نہیں ہوا۔ ملک دیوالیہ ہو رہا تھا لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے بعض دوست ممالک سے پیسے حاصل کرنے کی بنا پر ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے۔ امیدہے کہ یہ بنیادی حقیقت تحریک انصاف کی حکومت کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگی اور نئے سال میں ایسے اقدامات کیے جائیں گے جن سے ترقی کا سفر ازسرنو شروع ہو جائے گا۔ گزشتہ برس کا آغاز اس اچھے نوٹ پر ہوا تھا کہ اکانومی ترقی کرے گی اور میاں نواز شریف کے ’پاناما گیٹ‘ کے بھینٹ چڑھ جانے کے بعد نئے انتخابات کے نتیجے میں اقتصادی ترقی کا احیا ہو گا۔ عام انتخابات ہو گئے اور تحریک انصاف کی نئی حکومت بھی آگئی لیکن اقتصادیات کا حال روبہ زوال ہی رہا۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی ماہرین نے پیش گوئیاں کیں کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی 2018ء میں بھی زوال پذیر رہے گی اور بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے علاوہ برآمدات میں مسلسل کمی اور درآمدات میں مستقل اضافے کی بنا پر ملک مزید قلاش ہو جائے گا۔ وہ اکانومی جو گزشتہ سال کے دوران 5.8 فیصد تک بڑھی تھی، آئی ایم ایف نے نئے مالی سال میں اس کی شرح نمو میں کم سے کم دو سے تین فیصد کمی کی چونکا دینے والی خبرسنادی۔ بین الاقوامی کریڈٹ ایجنسیوں یعنی موڈی اور فچ نے ہماری کریڈٹ ریٹنگ کو مزید گرا دیا۔ سٹاک مارکیٹ بھی گرتی چلی گئی، ڈالر کے مقابلے میںروپے کی قیمت جس انداز سے اچانک تقریباً 30 فیصد تک کم کی گئی اس سے نہ صرف معیشت کو شدید دھچکا لگا بلکہ مہنگائی میں بھی گونا گوں اضافہ ہوا۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ڈالر121 رو پے کا تھا جبکہ اس وقت اوپن مارکیٹ میں 139رو پے کا ہے۔ نیب کی کارروائیوں اور عمران خان سمیت حکمران جماعت کے ارکان کے مسلسل بیانات کہ ’سب چور ہیں کسی کو نہیں چھوڑیں گے‘ کے باعث بھی مقامی سرمایہ کاری جمود کا شکار رہی۔ جب مقامی سرمایہ کاری کا یہ حال ہے توبیرونی سرمایہ کارکیونکر پاکستان کا رخ کرتا۔ ان حالات میں مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ اقتصادیات کو سنبھالا دینے کی ذمہ داری نجی شعبے سے سیاست میں قدم رکھنے والے اسد عمر کے کندھوں پر ڈالی گئی۔ بہت عرصے سے یہ بات سب کو معلوم تھی کہ اسد عمر ہی وزیر خزانہ ہونگے لہٰذا عام طور پر یہی خیال تھا کہ نئے پاکستان میں نئے وزیر خزانہ عمران خان کی قیادت میں اکانومی کا نیا ویژن دیں گے لیکن گزشتہ برس کے آخری چار ماہ میں تحریک انصاف کی حکومت اس شعبے میں ٹامک ٹوٹیاں ہی مارتی رہی۔ کبھی کہا گیا کہ ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں اربوں ڈالر کی امداد ملنے والی ہے، پھرعندیہ دیا گیا کہ ہم آئی ایم ایف میں جا رہے ہیں۔ اب تازہ خبر یہ ہے کہ جانا پڑا تو جائیں گے لیکن آئی ایم ایف سے نسبتاً کم قرضہ لیں گے۔ نہ جانے عوام کو صحیح صورتحال کیوں نہیں بتائی جا رہی۔ یقینا وطن عزیز اپنے گھمبیر مسائل کی بنا پر دوراہے پر کھڑا ہے جس کا اگرپورا ادراک حکمران جماعت اور اس کے پشت پناہوں کو نہ ہوا تو اس کا نتیجہ تباہ کن ہو گا۔ کم از کم حکومت کی پالیسیوں کا بظاہر فوکس اکانومی کی بحالی سے زیادہ دیگر محاذوں پر ہے۔ لوگوں کو سہانے خواب دکھا کر خوش کیا جا رہا ہے۔ کبھی مرغی انڈوں کے ذریعے اقتصادیات کی بحالی کی تجویز وزیراعظم کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اور کبھی یہ کہہ کر کہ پچاس لاکھ گھر ملیں گے، قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں غیر رسمی معیشت جس کو بلیک اکانومی بھی کہتے ہیں شاید حقیقی معیشت سے بھی بڑی ہو، یقینا اس کو ختم کرنا چاہئے لیکن گزشتہ برس فائلرز اور نان فائلرز میں تمیز روا رکھنے کے بعد نان فائلرز پر یہ پابندی لگانے کے بعد کہ وہ کار نہیںخرید سکتے گاڑیوں کاکاروبار رک گیا۔ جہاں معیشت میں سب کچھ ہی بے نامی چلتا ہو وہاں ڈاکومینٹیشن اکانومی اور ٹیکس بیس بڑھانا ضروری ہے لیکن اقتصادیات کو بحال کیے بغیر غیر رسمی اقتصادیات یعنی کیش اکانومی کو بھی ختم کرنے کی کوشش سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ختم کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ اس گھمبیر صورتحال کے باوجود حکومت یہی رٹ لگا رہی ہے کہ سب اچھا ہے اوردودھ کی نہریں جلد بہنا شروع ہو جائیں گی۔ اب تو پی ٹی آئی حکومت کے اندر سے بھی یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ اسد عمر گرتی ہوئی معیشت کا تریاق نہیں کر سکے لہٰذا ان کی جگہ کسی اور کو ذمہ داری سونپ دی جائے۔ نہ جانے عمران خان جو یوٹرن لینے کو معیوب نہیں سمجھتے یہ بہت ضروری اورمثبت یوٹرن کیوں نہیں لے رہے؟۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مترادف حکومت کے اقتصادیات کے ترجمان ڈاکٹرفرخ سلیم نے ایک ٹی وی انٹرویو میں برملا طور پر حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کو یکسر ناکام قرار دیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا روپے کی قدر میں کمی کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہوسکا، حکومت کی حکمت عملی کام نہیں کر رہی، ہم بیماری کا علاج نہیں کر رہے بلکہ علامات دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چودھری نے سوشل میڈیا پرایک ٹوئٹ کے ذریعے واضح کیا ہے کہ فرخ سلیم حکومت کے ترجمان نہیں، گویا کہ ڈاکٹر فرخ سلیم کا ٹوئٹ پر تقرر اور ٹوئٹ پر ہی چھٹی ہوگئی۔ اگر معاملات کو درست سمت کی طرف ڈالنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تونئے سال میں بھی اقتصادی حالات روبہ زوال ہی رہیں گے اور اپوزیشن جو سڑکوں پر نکلنے کی تیا ری کر رہی ہے حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔