وہ سال اُنیس صدستانوے ،مہینا دسمبر کا اور شدید پالے پڑنے کے دِن تھے۔یہ سردی پڑتی کہ ہڈیوں کے گُودے میں اُتر جاتی۔گہری دُھند،جو ماہِ نومبر سے شروع ہوگئی تھی ،نے دِن اور رات کی تمیزمٹاڈالی تھی۔دِن دوسے تین کے درمیان ذرادیر کو سورج دُھندسے جھانکتا پھر غائب ہوجاتا۔اِن خوف ناک شب وروز میں سے کوئی ایک لمحہ تھا کہ مجھے بخار نے آلیا۔بخار نے پہلا حملہ میری نیند پر کیا۔اُس شام جب ہم چولہے والے کمرے سے اُٹھ کر سونے والے کمرے میں گئے توآٹھ بج رہے تھے۔سب اپنے اپنے بستروں میں دُبک گئے۔تھوڑی دیر بعد خراٹوں سے کمرہ بھر گیا،جس کے نیچے،زیروکے بلب کی روشنی دَب گئی۔ مَیں جاگتارہا،ہر نسخہ اور طریقہ آزمایا مگر نیند نہ آئی۔مجھے ٹائم کا بھی معلوم نہیں پڑرہاتھا،کمرے میں کوئی گھڑی نہ تھی۔ایک عرصہ گزرگیا۔جس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ اب ساتھ گلی میں موجود مسجد سے مؤذن کی آواز گونجنے والی ہے ،وسل بج اُٹھا۔یہ ساڑھے گیارہ کا وسل تھا،جوشوگرملز کا تھا،مزدوری کرنے والوں کی شفٹ تبدیل ہونے والی تھی اور یہ پہلا وسل تھا،دوسرا پندرہ منٹ بعدبجنا تھااور آخری بارہ بجے۔وسل کی آواز جیسے میرے کان میں پڑی،بیماری کا حملہ اس قدر شدید ہوا کہ مَیں ہارے ہوئے سپاہی کی طرح بستر پر پڑا ڈھ سا گیا۔بارہ بجے والے وسل سے مؤذن کی آواز تک ،مجھے لگاکئی صدیاں بیت گئیں۔اذان کے بعد معلوم نہیں کتنی دیر ،مَیں ماں کے بستر کی طر ف دیکھتا رہا،جو مجھے نظر نہیں آرہا تھا۔پھر میرے کانوں میں ماں کی انگڑائی لینے کی آواز آئی ،بستر ہلتا محسوس ہوا،پھر نسوار کی ڈبیہ کھلنے کی آواز آئی اور آخرِکار جوتے پہننے کی آواز نے میرے اندر قدرے طاقت سی بھر دی۔ماں کمرے کا دروازہ کھول کر چولہے والے کمرے میں چلی گئی،مَیں ایک مُدت بستر میں اُٹھ کر بیٹھا رہا۔پھر ماں کے پیچھے ہولیا۔ماں نے مجھے دیکھا تو پوچھا تم جاگ رہے تھے؟ماں !مَیں تو رات بھر جاگتارہا ہوں۔ماں بولی،تو مجھے اُٹھا دیتے۔مَیں خاموش رہا۔مجھے ماں کے جاگنے ،چولہے میں لکڑیوں سے اٹھتے آگ کے شعلوں نے صبح ہونے کی اس قدر خوشی دی کہ بیان نہیں ہوسکتی تھی،طویل رات نے تو مجھے نڈھال کرکے رکھ دیاتھا۔ معلوم نہیں بیماری اور بارش کا زور رات ہی کو زیادہ کیوں ہوتا ہے؟ صبح ہوئی تو میری بہن مجھے اپنے گھر لے گئی۔سارادِن دُھند رہی۔شام سے ذراپہلے میرے بہنوئی نے کہیں سے گدھاریڑھی کا بندوبست کیا(سائیکل پر بیٹھنا میرے لیے محال تھا اور اُس زمانے میں گائوں وغیرہ میں رکشہ کا تصور بھی نہیں تھا)،اُس کے اُوپر کھجور کے پتوں سے بنی چٹائی اور چٹائی کے اُوپر گدابچھایا اور مجھے لاد کر ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ڈاکٹر اسلم بھلر سے میری پہلی ملاقات تھی۔یہ نئے نئے ڈاکٹر بن کر آئے تھے اور اپنا کلینک بنا لیا تھا۔مجھے تفصیل سے چیک کیا اور دوائیاں دے کر کہا کہ کل شام پھر چیک کروائیں۔وہ رات ویسی گزری ،جیسی گذشتہ گزرچکی تھی۔شام کو دوبارہ پہنچے تو اُنہوں نے بخار چیک کیا اور مزید دوائیوں کا اضافہ کیا۔مَیں نے نیند نہ آنے کی شکایت کی۔بولے دُعا کروبچ گئے ہو۔خیر نیند کی گولی کا اضافہ کردیا۔اُس رات مجھے وقفے وقفے سے نیند تو ٹوٹی پھوٹی آئی ،مگر ایسے ایسے خواب آئے کہ خداکی پناہ۔کچھ دِنوں بعد مَیں بیماری سے سنبھل گیا،زندگی معمول پر آگئی۔ڈاکٹر صاحب کی کلینک کے ساتھ وسیع میدان تھا،جہاں ہم کرکٹ کھیلتے۔ہماری ٹیم کے ایک ممبر امان اللہ ہانس تھے،جو میرے بہت قریبی دوست تھے،عمر میں سات آٹھ سال بڑے تھے ،افغان جہاد سے ہوآئے تھے ،پکے نمازی اور تبلیغی تھے،آج بھی ویسے ہی ہیں،البتہ اب معلوم پڑا ہے کہ مسلک تبدیل کر چکے ہیں،میچ شروع ہونے سے پہلے عصر کی نماز کی اِمامت کرواتے اور قریب کے لوگوں کو نماز کی دعوت بھی دیتے ،ہمیں بھی ساتھ لے جاتے۔ایک روز ہم ڈاکٹر صاحب کے پاس جاپہنچے اور اُنہیں نماز کی تبلیغ کی۔عصر کی نماز کے لیے جماعت کھڑی ہوئی تو پچھلی صف میں ڈاکٹر صاحب موجود تھے۔جب تک میدان آباد رہا،ڈاکٹر صاحب سے عصر کی نماز پر ملاقات ہوجاتی۔یہ زمانہ بھی گزرگیا۔دس بارہ سال بعد ،اچانک ایک روز ملاقات اِن کے کلینک پر ہوئی ،ڈاڑھی رکھ لی تھی،مَیں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب !یہ تبدیلی کیسے؟بولے،تم لوگ تبلیغ جو کرتے تھے۔پھر ہنس دیے اور بولے ،نماز کا وقت ہو چکا ہے ،آئو پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پکے بریلوی اور پیروں فقیروں کو ماننے والے تھے۔سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی سرانجام دینے کے بعد اپنے کلینک پر آبیٹھتے ،کھاتے پیتے زمین دار گھرانے سے تعلق تھا۔مگر عاجزی ایسی کہ کسی اور میں نہ دیکھی۔اِن کا ایک جوان بھائی کینسر کی بدولت زندگی کی بازی ہارچکا تھا۔یہ اپنے پورے خاندان میں پہلے شخص تھے ،جو ڈاکٹر بنے تھے۔میری تحریریں پڑھتے ،ایک روز مجھے کہنے لگے کہ تم اپنے نام کے ساتھ برادری لکھا کرو،یہ ضروری ہے ،تاکہ ہماری برادری کا نام دُور دُور تک جائے۔لیکن مَیں اُن کے کہنے پر عمل نہ کرسکا۔مُرورِ ایام کے ساتھ ،ڈاکٹر صاحب کا لگائو مذہب کی طرف زیادہ ہوتا گیا۔سرکاری ہسپتال میں ایک شاندار مسجد کی تعمیر بھی اِن کی بدولت ممکن ہوئی۔فیملی اور علاقے میں جو بھی اِن کے پاس چیک اَپ کے لیے آتا ،جتنے پیسے ہوتے دے جاتا،یہ کبھی پیسے گننے کے چکر میں نہ رہتے۔یہ گھروں میں جا کر بھی لوگوں کو دوائی تجویز کرآتے۔خاندان بھر میں شرافت اور سادگی کا ایسا پیکر تھے کہ ہر ایک اِن کا احترام کرتا۔میری اِن سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں ،زیادہ تر اِن کو خاموش ہی پایا۔ گذشتہ دِنوں معروف سماجی کارکن اور قانون دان عنایت اللہ کاشف اور نوجوان ملک اختر(جو ڈاکٹر صاحب کے عزیز ہیں)کی معرفت معلوم پڑا کہ ڈاکٹر صاحب کا انتقال ہوچکا ہے۔یہ خبر اُنیس صد ستانوے کی اُن تکلیف دِہ تین راتوں پر بھاری پڑگئی۔ڈاکٹر صاحب کو ابھی زندہ رہنا تھا،میرے جیسے مریضوں کے علاج کے لیے،معلوم نہیں اتنی جلدی کیوں چلے گئے؟شاید اِن کو جوان بھائی کی یادستارہی تھی۔اِن کا بوڑھا باپ اس دُکھ کا بوجھ کیسے اُٹھائے گا؟ ڈاکٹر صاحب چلے گئے۔ماں کو دُنیا چھوڑے اُنیس برس ہوگئے۔کہانی نویس رہ گیا ہے،یہ بھی چلا جائے گا،پیچھے کہانی رہ جائے گی۔ایک صدی دونسلوں کو کھاجاتی ہے،گھر کے آنگن خالی ہوجاتے ہیں۔مگر گھر کے صحن کی نکڑ میں ایستادہ نلکے سے پانی نکلتارہتا ہے ، نکلتارہتا ہے۔ ٭٭٭٭٭