جس دن ڈاکٹر ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس نے استعفے دیے اس دن پاکستان کی حزب اختلاف کی خوشی کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ اپوزیشن کو اس بات پر مسرت تھی کہ حکومت کے دو اہم وکٹ گر گئے اور مجھے اس بات کا ملال تھا کہ یہ دو وکٹ عمران خان کے نہیں بلکہ پاکستان کے تھے۔ یہ دونوں اس ملک کے بچے ہیں۔ یہ اپنے مادر وطن کی خدمت کرنے کے لیے پرکشش ملازمتیں چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا اقوام متحدہ کے صحت والے شعبے میں ملازمت کر رہے تھے۔ تانیہ ایدروس گوگل جیسی بین الاقوامی کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھی مگر انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم کی درخواست پر وطن کی خدمت کرنے کے لیے پاکستان آئے ۔ ان کو امید تھی کہ پاکستان میں ان کو پیسہ نہیں تو پیار ملے گا۔ دولت نہیں تو عزت حاصل ہوگی۔ مگر جب ان پر تنقید کی تیر برسنے لگے تو وہ غمگین دل کے ساتھ ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ دل میں چھپائے اپنے کام سے الگ ہوگئے۔ کیا وہ دونوں کرپٹ تھے؟ کیا وہ دونوں نااہل تھے؟ کیا وہ دونوں معاشی طور پر مجبور اور بیروزگار تھے؟ کیا وہ مفلسی کے ہاتھوں تنگ آکر وطن واپس آئے تھے۔ آج بھی ان دونوں کے لیے عالمی سطح کی آفرز موجود ہیں مگر وہ دکھی دل سے پاکستان چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جن حالات سے پاکستان گذر رہا ہے ان حالات میں ہمارا فرض تھا کہ ہم پاکستان کے قابل فخر بیٹے اور بیٹی کی منت کرتے اور ان پر عزت و محبت کے پھول نچھاور کرتے مگر ہم نے ان پر تنقیدی حملے کیے۔ ہم نے ان کی توہین کی۔ ہمارے سیاستدان اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ امریکہ کس طرح ورلڈ پاور بنا؟ جب دوسری جنگ عظیم کے باعث پورا یورپ جل رہا تھا اور جرمنی کے غیرعیسائی سائنسدان اور اپنے شعبوں میں بہت بڑے ماہر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے تب امریکی حکمرانوں نے انہیں اپنے ملک میں پناہ دینے کے لیے حکمت عملی اپنائی۔ انہوں نے ذہین اور ماہر غیرملکیوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیے۔ اس عمل کو عالمی تاریخ میں Brain Drain یعنی ذہنوں کا اخراج کہا جاتا ہے۔ وہ سب لوگ جو اعلی ذہنوں کے ملک تھے وہ اپنے ملکوں سے نکلے اور امریکہ نے انہیں نہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں شہریت بھی دی اور انہیں مراعات والی ملازمتوں سے اپنے ملک کا باشندہ بنا دیا۔ امریکہ نے یہ سلسلہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی جاری رکھا۔ امریکہ میں بہت سارے روسی اور چینی لوگ سیاسی پناہ حاصل کرنے آئے اور ان کو امریکہ نے گلے سے لگایا اور وہ امریکہ کے کو مزید طاقتور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے میں مشغول ہوگئے۔ امریکہ اس طرح سپر پاور بنا کہ اس نے دنیا کے ذہین لوگوں کو اپنے ملک میں بسنے کی اجازت دی اور ان کی صلاحیتوں سے وہ فائدہ حاصل کرتے رہے۔ مگر ہم نے اس کے الٹ کام کیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ ملک کا سرمایہ لوٹ کر باہر کے بینکوں میں بھرا ہے اور انہوں نے ساری سرمایہ کاری باہر کی ہے۔ پاکستان کی دولت امریکہ اور برطانیہ کی معاشی دولت بن رہی ہے۔ پاکستان کا لوٹا ہوا پیسہ باہر کے بینکوں میں سڑ رہا ہے۔ مگر جب کوئی پاکستانی باہر کے ملکوں میں ماہر بن کر ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے ہم اسے روک لیتے ہیں۔ ہم اس کو کام کرنے نہیں دیتے۔ اس طرح وہ دکھی دل کے ساتھ رخت سفر باندھتے ہیں اور اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ شاید یہ وہ پاکستان نہیں جس کے بارے میں انہوں نے اپنے خاندانوں والوں سے پیاری پیاری باتیں سنی تھیں اور اس کی خدمت کا جذبہ ان کے دل میں اس وقت پیدا ہوا تھا جب وہ ابھی بچے تھے۔ انہوں نے اس وقت ہی فیصلہ کیا تھا کہ جب وہ بڑے ہوجائیں گے تب وطن واپس جائیں گے اور پاکستان کو دنیا کا طاقتور اور محفوظ ملک بنائیں گے۔ مگر وہ ملک انہیں یہاں نہیں ملتا۔ یہاں تو انہیں الزامات ملے۔ یہاں تو ان پر اخلاقی حملے ہوئے۔ وہ غمگین دل کے ساتھ ملک سے واپس آئے۔ وہ ملک جو ان کے لیے خیالی جنت تھا۔ اس ملک سے انہیں اس طرح نکالا گیا۔ پاکستان کے دور بسنے والے پاکستانی جس ملک کا تصور اپنے ذہنوں میں رکھ کر جیتے ہیں وہ ملک انہیں نظر نہیں آتا۔ ان کا ملک شاید اس دھرتی پر نہیں ہے۔ ان کا ملک ان کے دل میں ہے۔ ہمارے کرپٹ اور ہمارے بیوپاری سیاستدان ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کر سکتے جو صاف ضمیر اور اجلے دامن والے ہوں۔ ان کو دیکھ کر ہمارے کرپٹ سیاستدانوں کو احساس جرم ہوتا ہے۔ انہیں صرف جلن ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ ناقابل بیان شرمندگی سے گذرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو ملکی دولت دے کر بیرون ملک بھیجتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ یہ ملک ان کے لیے محفوظ نہیں مگر یہ کون ہوتے ہیں جو دنیا کے طاقتور اور خوشحال ممالک کی مراعت یافتہ ملازمتوں کو چھوڑ کر پاکستان آتے ہیں اور انہیں دیکھ کر ہمارے باقی بچے کچھے ضمیر کو بہت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ شاید اصل بات ان کے ضمیر کی بھی نہیں ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں ہمارے کرپٹ سیاستدانوں کا کردار زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ انہیں برداشت نہیں کرتے۔ اندھیروں کے باسی روشنی سے ڈرتے ہیں۔یہ ہمارے ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ آخر ہم صحیح راہ پر کب آئیں گے؟ پاکستان عرصہ دراز سے بڑی تکلیف سے گذر رہا ہے۔ ہمارے ملک ہر شعبہ کرپشن اور نااہلی سے بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ اس ماحول میں ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو ذمہ داری سے اپنے ملک کی خدمت کریں۔ ایسے افراد جو بہت کچھ جانتے ہیں۔ ایسے افراد جنہیں معلوم ہیں کہ ترقی کیسے ہوتی ہے؟ وہ لوگ جو اس بات سے آگاہ ہیں کہ خواب تعبیروں میں کس طرح تبدیل کیے جاتے ہیں؟ ہم ایسے افراد کو برداشت نہیں کرسکتے ۔ کیوں کہ ہم رات کے رفیق ہیں۔ وہ لوگ صبح کے امین ہیں۔ اگر ہم ان کو وطن میں آنے نہیں دینگے تو اور ان کو آزادی و عزت سے کام کرنے نہیں دینگے تو وہ صبح کس طرح آئے گی؟ جس صبح کی انتظار میں ہم نے بہت ساری راتیں کاٹی ہیں۔