اے قادرِ مطلق! مَیں یہ بات بہ خوبی جانتا ہوں کہ تُو جس پہ مہربان ہو جائے اسے چھپر پھاڑ کے دیتا ہے اور جس سے ناراض ہو جائے اس کا چھپر ہی پھاڑ دیتا ہے۔ اے آسمانوں کے، زمین کے، اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان سب کے رب! مَیں تیری بندگی کرتا ہوں اور تیری قدرتِ کاملہ پہ قانع بھی ہوں۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ جو لوگ پورے وثوق اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہمیشہ صرف اور صرف تجھی سے مانگتے ہیں، تُو نے انھیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ یہ بھی تسلیم کہ اس کائنات میں نہ تیرا کوئی ہم نام ہے اور نہ کوئی ہم پَلّہ ! مَیں تیرے اُس عاجز و موحد بندے اور عظیم شاعر کے اس اعتراف پہ سو فیصد سہمت ہوں کہ: سروری زیبا فقط اُسی ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی ، باقی بتانِ آذری اے خدا! مَیں مانتا ہوں کہ تُو وہی ہے جس نے ایک زمانے میں مجھے جنت سے نکال کے زمین پہ بھیجا تو مَیں نے تمھارے اس فیصلے کو نہایت کڑے دل کے ساتھ قبول کیا تھا بلکہ ایک زمانے تک تو تیرے اس عمل کو سزا سمجھ کے یہ شکوہ بھی کرتا رہا کہ: جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا کاٹتا ہوں عمر بھر مَیں نے جو بویا نہیں لیکن رفتہ فتہ تیری یہزمین مجھے اس قدر بھائی کہ مَیں اس کی محبت میں دیوانہ ہوتا چلا گیا۔ مربعوں، پلازوں، باغوں، فارم ہاؤسوں کو دل میں بساتا چلا گیا۔ اس دھرتی کے چپے چپے پہ اس قدر ٹوٹ کے پیار آیا کہ مَیں اس کا کونہ کونہ چومنے اور اس پہ جا بہ جا گھومنے کی خواہش میں زمین کا گز بنتا چلا گیا لیکن ان دو گزوں کو یکسر بھول گیا جہاں میر ا آخری ’بینگلو‘ تیا ر ہونا تھا۔ ایک شاعرِحق گو نے میری اس خود سری و خود فراموشی کی کیسی سچی تصویر کھینچی تھی: باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟ کارِ جہاں دراز ہے ، اب میرا انتظار کر اے ربِ ذوالجلال!مجھے کشتی والے نوحؑ کی سنگلاخ اُمت بھی یاد ہے، تُو نے جس کی نو سو سال تک رسی دراز کیے رکھی، جب کسی طرح کی تبلیغ و تفہیم پر بھی اُس کا دل نہ پسیجا تو تُو نے ایک ہی جھٹکے میں سب کا کام تمام کر دیا، چند چنیدہ لوگوں کو باقی رکھا۔ تیرے بقول یہ وہی غریب غربا تھے، جن کے سامنے رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تو وہ روتے گڑگڑاتے سجدوں میں گر جاتے تھے۔ باقیوں کا تو بقول شاہین عباس وہی حال ہوا: پانی پہ مذاق بن گئے ہم کشتی میں نہ تھی جگہ ہماری اے خدا! مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ تُو وہی ہے جس نے مریم ؑجیسی مقدس ہستی کو ایسی آزمائش سے سرخرو کیا جو کسی بھی معاشرے میں بڑی سے بڑی تذلیل کا سبب بن سکتی تھی۔ تُو نے ننھے مُنے ابراہیم ؑ کو محض توحید کے ادراک کی بنا پر باپ سے بڑا بنا دیا۔ پھر اسے نہ صرف والد اور زمانے کے سخت ترین رویے کو برداشت کرنے کی ہمت بخشی بلکہ صلے میں اسماعیل ؑ و اسحاق ؑ و یعقوبؑ جیسی احکامِ الٰہی پہ شاکر اور آدابِ فرزندی کی خوگر نسل عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کا معمار اول بھی بنا دیا اور اس خانوادے کی ایک ایک ادا کو ’فالو‘ کرنے کے عمل کو قیامت تک کے لیے حج جیسی عظیم عبادت قرار دیا ۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ تُو وہی ہے جس نے آدم و حوا،عیسیٰ ؑاور اور اپنے پیارے آخری نبی ؐ سمیت کتنے ہی پیغمبروں کو باپ جیسی عظیم نعمت سے محروم رکھا،شاید اس لیے کہ تُو جانتا تھا کہ ہر اُمت اپنی ڈھٹائی، نافرمانی اور ہٹ دھرمی کو ’باپ دادا کا راستہ‘ کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کرے گی۔ میرے عظیم رب! مَیں کیسے فراموش کر سکتا ہوں کہ تُو وہی ہے جس نے موسیٰ ؑ جیسے بے یارو مددگار بچے کو اس کے سب سے بڑے دشمن کے گھر میں ناز و نعم کے ساتھ پالا اور تیرے ہی حکم پر بچپنے میںہاتھ اور زبان جلا بیٹھنے پر اسے نہ صرف یدِ بیضا کا نادر معجزہ اور ’کلیم اللہ‘ جیسا عدیم المثال شرف عطا کیا بلکہ اس کی ذرا سی خواہش پر اس کے بھائی ہارونؑ کو بھی پیغمبری فہرست میں شامل کر لیا۔ میرے علم کے مطابق انسانی تاریخ میں ڈیبیٹ بیس (Debate Base) پہ کی جانے والی یہ پہلی بھرتی تھی۔شاعر نے ایسے ہی نہیں کہا تھا: خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال آگ لینے کو جائیں اور پیغمبری مل جائے اے باری تعالیٰ! تجھے اس پیارے پیغمبر کا واسطہ، تُو نے جس کے ذکر کو بلند کیا، جسے کبھی تُو چادر اوڑھنے والا کہہ کے مزے لیتا ہے، کہیں اس کی کالی زلفوں کی قسم کھاتا ہے، جس کی ایک دعا سے تُو عمر کو عمرِ خطاب ؓ بنا دیتا ہے اور بو لہب کے گستاخ فرزند پہ بھیڑیا مسلط کر دیتا ہے۔ آج اسی نبیؐ کے صدقے تجھ سے پہلی استدعا ہے کہ اس کی ذاتِ والا صفات کی شان میں کسی بھی طرح کی گستاخی اور اس کے بتائے دین کو کسی بھی انداز میں مسخ کرنے والوں کی زبانیں نوچ لے، گردن دبوچ لے۔ اے خدا! اب چلتے چلتے ایک آخری بات بھی بتا دوں کہ ایک دنیا تُو نے بنائی تھی، جس میں تمام لوگ ایک ہی قانون کے تابع تھے اور جس میں محمدﷺ کی بیٹی کو بھی جرم کرنے پر سزا کی وعید سنائی جاتی تھی۔ وہ فارمولہ ذرا سخت تھا،اس سے ہمارے ناز و نعم میں پلے لوگوں میں بہت سے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، اس لیے اپنی سہولت کے لیے یہاں ایک مفید دنیا ہم نے خود بنا لی ہے، جس میں ’ہمہ یاراں جنت، ہمہ یاراں دوزخ‘ کی بجائے ’کچھ یاراں جنت، کچھ یاراں دوزخ‘ کا فارمولہ رواج پائے گا۔ ہمارے ان بڑوں کی مجبوری سمجھتے ہوئے تجھے اس پہ زیادہ اعتراض نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ: تُو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ ’مجبور‘ کے اوقات