محبت ایک مستقل معجزہ حیات ہے۔ ہر شخص کے مقدر میں ایک خاص وصف فطرت ودیعت کرتی ہے جو اس کی شخصیت کو ممتاز کرتا ہے جن لوگوں کی امتیاز صفات میں محبت کا سرمایہ ازلی موجود ہو تو ایسے لوگوں کو دوسرے لوگ اپنی حیات کے سفر میں مشعل راہ شمار کرتے ہیں۔ محبت کے ہزار رنگ اور ہر رنگ میں لاکھوں رچائو ہیں اور پھر کسی بھی محبت بردار شخص کی برکت رسانی اور جذب دروں کا فیضان معاشرے کو زندگی کی دعوت دیتا ہے۔ ازل سے یہ معجزہ اپنے تسلسل کو انسانی زندگی میں منتقل کرتا آ رہا ہے اور ذوق حیات کو تازگی کی نعمت عطا کر رہاہے ‘علم معجزہ ہے۔ محبت اس معجزے کو مستحکم کرتی ہے تو یقین کی دولت میسر آتی ہے علم اور محبت کا گندھائو ایمانی رویوں کو دلیل باطنی کا سہارا دیتا ہے۔ عالم محبت کی بانسری بجاتے ہوئے جنگل میں جا نکلیں تو شہر آباد ہوجاتے ہیں اور اگر وہ شہروں سے کوچ کرجائیں تو شہروں میں ویرانی ڈیرہ کرتی ہے۔ عالم کے ساتھ ایک کائنات سفر کرتی ہے اگرکوئی عالم اخلاص فی الدین اور استحکام فی الایمان کا مظہر بن کر دلوں کی وادیوں میں اترے تو شہر جاں میں حیات کی رونقیں اتر آتی ہیں اور جہان برزخ کے راستے دلکشا نظر آتے ہیں۔ زندگی تو زندگی ہوتی ہی ہے۔ موت بھی دوام زندگی کا عنوان دلربا بن جاتا ہے علما جب ذائقہ موت سے آشنا ہوتے ہیں تو ایک عالم پر موت طاری ہوتی ہے اور ایک غلغلہ کہ موت العالم موت العالم۔ کہ عالم دین اکیلا ہی ارتحال آشنا نہیں ہوا ہے ایک جہان کا بستر لپیٹ دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہمارے دور کے ایک صاحب تقوی اور خوف خدا کا پیکر‘ محبت رسول ؐ کا نقیب دوراں عالم برزخ کی طرف روانہ ہو گئے۔ علم و فکر کا یہ نمائندہ مولانا محمد منیر احمد یوسفی اپنے لاکھوں مداحوں کو گریہ کرکے چھوڑ گئے۔ ایک داستان کے ورق تمام ہوئے اور نئی داستان کے عنوان نے جلی نسل نو کو ایک پیغام دیا ہے کہ زندگی کو روشن زندگی بنانے کے لئے معجزہ علم اور معجزہ محبت سے سنوارا جائے۔ ہر دور میں زندگی کو زندگی کا رنگ دینے والے مختلف ناموں اور مختلف کرداروں سے منصۂ حیات پر جلوہ گر ہوتے ہیں اور نسلوں کی تربیت کر کے مقام فوزپر جا مقیم ہوتے ہیں۔ اہل علم جن کی زندگی خشیت الٰہی سے معمور ہوتی ہے اور باطن تقویٰ سے مزین ہوتا ہے جس تقویٰ کوفانھا من تقویٰ القلوب کی منزل قرار دیا گیا ہے ایسے ہی اہل علم علماء ربانیین کی صف میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی لائق اطاعت ہوتی ہے اور ان کی موت لائق رشک ہوتی ہے۔ زمین اپنی وسعتوں سے ان کا استقبال کرتی ہے اور آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرتا ہے۔ مولانا منیر احمد یوسفی ایسے ہی پاکان خدا کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دین کو راہ ہدایت سمجھ کر روح کی گہرائیوں سے قبول کیا تھا اور اس راہ ہدایت کو محبت آفریں جذبوں سے ایسے طے کیا تھا کہ اہل قافلہ ان کی آواز کو منزلِ کامگاری کی نوید اول سمجھتے تھے۔ ان کا طرز حیات ایک ہی فکری محور کے گرد گھومتا تھا ؎ بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است دین وجود کے کناروں میں محبت و اطاعت کے ربط کا نام ہے۔دین محض نعرہ نہیں کہ خیالات کو جذبات کی وادی میں اتارے۔ محض ابلاغ نہیں کہ قولی انداز کو عین حیات کا مقصد قرار دیا جائے یا ایک محض پیغام نہیں کہ جس میں عمل کی روح عنقا ہو۔دین انسانوں کو انسان سے محبت اور اخلاقی رویوں کی تہذیب سکھاتا ہے۔مولانا منیر احمد یوسفی احیائے دین کے ایک خاموشی مگرپر اثر کارکن کی طرح خدمات انجام دیتے رہے۔ راقم ان کے اخلاص اور جہد مسلسل کا ہمیشہ ہی معترف رہا ہے۔ لاہور میں پچاس برس تک درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا۔ مختلف مقامات پر یہ دینی خدمت بغیر کسی معاوضے کے بجا لاتے تھے اور اپنے سامعین کی ذہنی تربیت اس انداز سے کیا کرتے تھے کہ ایک سچے اور کھرے مسلمان کی قرآنی آفاقی تربیت ہوا کرتی تھی۔ وہ محض نظری قرآنی منبع نہیں بنتے تھے۔ بلکہ ان کی زندگی میں قرآن‘ صاحب قرآن ﷺ کی سیرت بن کر اترتا تھا۔ مولانا منیر احمد یوسفی ہمیشہ ہی مسنون لباس زیب تن فرماتے تھے۔ سفید لباس ‘ تہبنداور سفید دستار ۔اس لباس میں ہمیشہ اطمینان اور اعتماد محسوس کرتے تھے۔92چینل پر اکثر مہمان ہوا کرتے تھے اور اسی سادہ مسنون لباس میں پراعتماد لہجے کے ساتھ نہایت متوازن اور دھیمی گفتگو کرتے تھے۔ مختلف شعبہ مسائل میں علمی رائے کو محض علمی حدود تک رکھا کرتے تھے علمی اختلاف میں دلیل اور دلیل میں وزن کے ساتھ ان کا اخلاص دروں ان کی سادہ گفتگو سے عیاں ہوا کرتا تھا ۔ایک بہت اہم علمی کام ان کی زندگی کا امتیازی سرمایہ ہے۔ علم حدیث میں روایات کی تطبیق اور مختلف مسائل میں سلامتی کا راستہ تلاشنا ان کی علمی وسعت اور فکری رسوخ کا پتہ دیتے ہیں ۔احادیث نبوی ؐ کی مشہور کتاب بخاری شریف کی روایات کو کچھ مدعیان علم اپنے نیم خواندہ فکری رویوں کو مضبوط کرنے کے لئے غلط استدلال کے ساتھ پیش کیا کرتے ہیں سچائی پر کتمان کا نفسیاتی پردہ ڈالنا ان کا محبوب بزعم خویش دینی رویہ ہے۔ مرحوم یوسفی اپنے اردگرد کے علماء کو فروعی مسائل سے ہٹ کر اسلام کی بنیادی تعلیمات کو عام کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ ان کا انداز تبلیغ بہت سادہ اور صوفیانہ طرز پر مبنی تھا اسلامی تربیت کے مراکز مساجد کی تعمیر میں بہت دلچسپی لیا کرتے تھے ۔مختلف علاقوں میں اپنے متوسلین کو آمادہ کار رکھتے تھے کہ اپنے علاقوں میں مساجد کی تعمیر کریں اور تربیتی مراکز مدارس دینیہ کا اہتمام بھی کریں۔ مولانا مرحوم اپنی زیست مستعار توحید و رسالت کے انوار تقسیم کرتے ہوئے گزار گئے اور نسل نو کو جو اثاثہ ایمان و رائتاً منتقل کر گئے ہیں وہ ملت کی روشن سامانی کے لئے ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ حق مغفرت فرمائے کہ مردِ ایماں تھا