میٹھی عید سویّوں والی ،گرم موسم کی چادر لپیٹے آئی اور ہمیں بھی اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ ہم کہیں آگے جانے اور ملنے ملانے کے قابل ہی نہ رہے۔ بہت مشکل سے رومال سے پسینہ پونچھتے ہوئے والدہ محترمہ کی خدمت میں آداب عرض کرنے حاضر ہوئے۔ بھائی جان کو اعتکاف اور عید کی مبارکباد دی ، پھر سڑک پر نکلے تو ہو کا عالم تھا۔کیا انسان اور کیا حیوان سبھی سائے کی تلاش میں تھے۔ یااللہ ایسی گرمی کہ سورج کو بھی پسینہ آ جائے۔ دن بغلگیر ہونے اور گلے ملنے کا تھا مگر جیسے دیکھا گرمی کی شدت کا گلہ مند پایا۔ عید اگر عید تھی تو اس لئے کہ آج پانی سے گلے کو تر کرنے کی اجازت تھی۔ پانی پیو اور جی بھر کے پیو۔ مگر کیفیت یہ کہ بقول مرزا ان دنوں تو جی میرا جینے سے بھی بیزار ہے۔ سو یہ عید تو ایسی گزری کہ ملنا جلنا ہی نہ ہوا‘ نہ کہیں زیادہ آنا جانا ممکن ہوا۔ دوسرے شہروں کا احوال تو وہاں والے جانیں۔ کراچی میں تو جن کے گھروں میں اے سی کی فارغ البالی تھی‘ انہوں نے ٹھنڈے کمرے میں دن گزرا اور شام کو جب سمندر سے ہوا بہتی ہوئی آئی تو لوگ باگ گھروں سے ایسے نکلے کہ سڑکوں پہ ٹریفک جام ہو گیا۔ گویا یہ عید تو ہر رخ سے پریشان کرے گی۔ چاند رات کو بھی بازاروں اور شاپنگ مال وغیرہ کا یہ احوال رہا کہ کھولے سے کھوا چھلتاتھا۔ کپڑوں اور جوتے چپل کی دکانوں پر گاہک کیا مرد اور کیا خواتین اور بچے ٹوٹے پڑتے تھے۔ کہاں کی مہنگائی اور کیسی گراں فروشی‘ سب کہنے کی باتیں تھیں اور یوں کھربوں کا کاروبار ہوا۔ رمضان المبارک میں پھل فروٹ والوں نے خوب کمائی کی۔ ویسے بھی ہم لوگ عام دنوں میں جتنا کچھ خیال اپنے معدے کا رکھتے ہیں‘ روزوں کے بعد اس معدے کی پرورش جس طرح کرتے ہیں اسی سے گراں فروشی کا کاروبار چمکتا ہے ۔ رمضان میں ہم لوگوں کا وزن گھٹنے کے بجائے اوربڑھ جاتا ہے۔ چربی آنکھوں ہی پہ نہیں‘ بدن پہ بھی چڑھ جاتی ہے۔ راتوں کو جگائی اور دن بھر سلائی اکثر گھروں کا معمول‘ یوں زیادہ کھانا اور جی بھر کے سونا ماہ مقدس کی مقبول عام سرگرمی ۔ یہی ہے ہمارے ہاں رمضان کلچر‘ بچپن کے دن تھے جب کچھ اور چیزیں اسی کلچر سے جڑی ہوتی تھیں جو اب غائب ہو گئی ہیں۔ ان میں سحری میں جگانے والے پرسوز آوازوں میں گیت گاتے ہوئے آتے تھے کہ اٹھو روزے دارو‘ سحر ہو گئی۔ جانے اب وہ نیند کے ماتوں کو بیدار کرنے والے کہاں چلے گئے۔ فقط سائرن کی آواز رہ گئی ہے۔ چمٹا بجا بجا کر جگانے والے گھنٹیوں کی مدد سے گاگاکر خواب خرگوش سے باہر نکالنے والے بھی رمضان کلچر سے مفقود ہوئے۔ اور وہ بچے بھی گھروں میں کہاں رہے جو روزے رکھنے کی ضد کرتے تھے اور ان میں جو روزے رکھتے تھے۔ ہار پھول پہن کے جن کی روزہ کشائی ہوتی تھی۔ خاندان کا ایک بڑا واقعہ جن کی تصویروں سے خاندانی البم روشن رہتے تھے۔ اب البم کہاں اب تو فیس بک ہے جہاں ہر سرگرمی کی تصویریں ڈال دی جاتی ہیں اور پھر لائیک اور ڈس لائیک کی نمبر شماری ہوتی ہے۔مسجدیں جو روزوں میں نمازیوں سے بھری رہتی تھیں عید کے دن ہی وہ رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں، مسجدیں پھر سنسان‘ نمازی معدوم اور دروس حدیث و قرآن کا سلسلہ موقوف۔ اسے بھی رمضان کلچر کا جزو جانیے۔ رہا معاملہ عید کلچر کا، تو ہمیں یاد ہے بچپن میں عید کا انتظار دو سبب سے رہتا تھا۔ ایک تو نئے کپڑے اور نئے جوتے کہ جنہیں ہم چاند رات کو نیند سے اٹھ اٹھ کر دیکھتے تھے کہ صبح ہو تو ہم انہیں پہنیں اور پھر بڑوں سے عیدی وصولیں۔ تو یہ دوسری چیز عیدی تھی جس میں بھائی بہنوں سے مقابلہ ہوتا تھا کہ کسے کتنی عیدی ملی۔ چھوٹی عمر میں بڑوں سے عیدی بٹورنے اور اب بڑی عمر میں چھوٹوں کو عیدی دینے کا سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ظاہر ہے اسے بھی کلچر ہی کہا جائے گا جو اسی خطے کا خاصہ ہے۔ ورنہ دوسرے مسلم ملکوں میں عیدی کے بجائے تحائف کا تبادلہ ہو تو ہو۔ دین کو جڑ سے پکڑنے والوں کا ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو گیا ہے جو عید پہ گلے ملنے کو بھی بدعت سے تعبیر کرتا ہے۔ ایسوں سے نہ الجھنا بھی بہتر ہے جو دین کی مذہبی ثقافت یا کلچر میں فرق نہیں کر پاتے۔ دین جن بنیادی باتوں کی تعلیم دیتا ہے ان بنیادوں کو چھوڑ کر فروعی باتوں کو غیر ضروری اہمیت دینا اور ان پر الجھ پڑنا وہ بھی اسی طرح کہ گویا دین کی حقانیت کا انحصار ان ہی فروغ پر موقوف ہے۔ محض شدت پسندی ہی تو ہے۔ سو ہم ان سے دور بھاگتے ہیں۔ ٹیلی ویژن تجزیوں میں اس خطرے سے خبردارکیا گیا ہے کہ عید کے بعد اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلائے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت تو خود ایک تحریک کے بطن سے پھوٹی ہے اس کے خلاف تحریک چلا کر کچھ ملے نہ ملے لیکن عوام کا ناطقہ مزید بند ہو جائے گا۔ اس سے ملک یا عوام کو کیا ملنا ملانا ہے۔ فقط یہ کہ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ ہمیں تشویش اس کی ہے کہ موجودہ حکومت جو کپتان عمران خاں کی سربراہی میں قائم ہے‘ قوم کا آخری آپشن ہے‘یہ آپشن بھی مایوسی اور ناکامی سے ہمکنار ہوا تو کیا نتیجہ برآمد ہو گا؟ اس بارے میں سوچنے ہی سے ہول اٹھتا ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ مستقبل کے آثار بھی اچھے نہیں ہیں۔ عوام کو دو ڈھائی سال اور صبر کرنے اور مہنگائی کو جھیلنے کی جو تسلی دی جا رہی ہے۔ وہ طفل تسلی کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی ایسی معاشی پالیسی تاحال وضع نہیں کی گئی ہے جس کے خوشگوار اثرات و نتائج دو ڈھائی برسوں میں برآمد ہونے کا امکان نظر آتا ہو قیاس یہی ہے کہ آج والے برسوں میں مشکلات اور مسائل میں اور اضافہ ہی ہو گا۔ تبدیلی کا جو نعرہ لگایا گیا تھا کسی بھی ہوم ورک کے بغیر۔ یہاں تک کہ کسی لائق اور باصلاحیت ٹیم کی عدم موجودگی میں حکومت بنانے کے بعد اور کابینہ کی ری شیفلنگ کے بعد اب تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی قیادت کے پاس سوائے بلند بانگ دعوئوں کے کچھ تھا ہی نہیں۔ کوتاہ نظری اور بے بصیرتی کا یہ عالم کہ کھوٹے اور چلے ہوئے سکوں کو ہی سامنے لایا گیا جن سے بہتری کی کوئی امید نہیں۔ وہ طبقہ بھی جو موجودہ قیادت سے خوش گمانی و پرامید تھا وہ بھی رفتہ رفتہ اپنے گمانوںسے نکل کر مایوسی کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ انجام کار جو بھی نقشہ ہے وہ ناقابل تصور ہے۔ خدا وند تعالی کی ذات ہی آخری سہارا ہے جو ہر شر سے خیر پیدا کرنے پر قادر ہے کوئی معجزہ ہو تو یہ وگرنہ صورت حالات ایسے ہیں کہ فوج بھی اپنے اخراجات میں کٹوتی پر تیار ہے کہ ایسا تو کبھی ہوا نہیں لیکن ہوا ہے تو قیاس صورت حال کی سنگینی کا کیا جا سکتا ہے۔ اس قوم کی صورت حال اس بے بس و سراسیمہ آدمی کی سی ہے جو بھوکے شیر کی خوراک بننے سے بچنے کے لئے بھاگا تو اس کنوئیں میں جاگرا جس کے کناروں پہ گھاس اگی تھی۔ اس نے گھاس کو تھام کر خود کو گرنے سے بچایا۔ اب جو نیچے دیکھتا ہے تو تہہ میں اژدھا منہ پھاڑے بیٹھا ہے‘ اوپر تکتا ہے تو ‘ بھوکا شیر ہے‘ گھاس کو ایک سیاہ چوہا کترنے میں مصروف ۔ غرض ہر طرف موت اور فنا ہے۔ چاروناچار ایک شہد کے چھتے پر اس کی نگاہ پڑتی ہے اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کہ شہد سے منہ لگا لے اور اس سے لطف اٹھائے۔ تو قوم ہماری آج بھی مایوس ہو نہ ہو زندگی کے شہد سے لطف اندوز ہونے میں مگن ہے۔ بازاروں اور ہوٹلوں کی رونقیں‘ سڑکوں پہ گاڑیوں کا ہجوم‘ پارکوں اور ساحلوں کی گہما گہمی‘ تعلیمی اداروں اور سرکاری و نجی دفتروں کی مصروفیتیں‘ بازار سیاست اور چینلوں کی ہاہا کار‘ یہ سب زندگی میں مگن و مصروف رہنے اور ان ہی سے لطف زندگی کشید کرنے کے نظارے ہیں جن سے امید بندھتی ہے کہ رات دن گردش میں ہیں سات آسمان۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔تو اے لوگو‘ تم خدا کی کن کن نعمتوں سے انکار کرو گے۔