مکرمی! لاہور کے علاقے ڈیفنس میں چند روز پہلے پیش آنے والے اندوہناک واقعہ نے پورے ملک کی فضاء کو جہاں افسردہ کر دیا وہاں تشویش کی لہر بھی دوڑا دی۔ لاہور کا اندہناک واقعہ خطرے کی گھنٹی بجا گیا ہے۔اگرچہ بچوں کی ڈرائیونگ کا مسئلہ دیرینہ ہے تاہم ایک نو عمر ڈرائیور کی وجہ سے اتنا سنگین حادثہ پہلی بار ہوا ہے، جس میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد کا جان سے چلے جانا اْس خاندان کے لئے ایک بڑا سانحہ ہے ،جو زندگی بھر بلکہ نسلوں تک ایک دْکھ بن کر اْس کا پیچھا کرتا رہے گا پولیس کا کہنا ہے کہ 14سالہ لڑکا ڈیڑھ سو کلو میٹر کی رفتار سے کار چلا رہا تھا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ حادثہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور ہزاروں افراد نے اس واقعہ کی ذمہ داری اْن والدین پر بھی ڈالی جنہوں نے اپنے کم عمر بیٹے کو گاڑی چلانیکی اجازت دی۔بچوں کی ڈرائیونگ کے حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے،مگر افسوسناک امر ہے کبھی اس سنجیدہ مسئلے کو اعلیٰ حکام کی طرف سے توجہ کے قابل نہیں سمجھا گیا۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس مجرمانہ فعل میں سب سے زیادہ اعلیٰ اور امیر گھرانوں کے بچے ملوث ہیں۔ہر بڑے شہر کی سڑکوں پر بڑی گاڑیوں میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے نو عمر ڈرائیورز دیکھے جا سکتے ہیں، ٹریفک پولیس اگر انہیں روک بھی لے تو ایک فون کال یا پھر چالان ادا کر کے یہ روش جاری رکھی جاتی ہے۔کیا وقت کی گرد اس بڑے واقعہ کی شدت کو بھلا تو نہیں دے گی۔کیا صوبے میں نو عمر ڈرائیوروں کے خلاف کوئی بڑا کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔کیا بچوں کو گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے کی اجازت اور سہولت دینے والے والدین کو بھی قانون کی گرفت میں لانے کے لئے قانون سازی کی جائے گی؟۔لاہور میں جس نو عمر لڑکے نے چھ افراد کی جان لی، اْس نے بھی پولیس کو دیئے گئے اپنے بیان میں یہی کہا ہے کہ اْس نے ضد کر کے اپنے والد سے کار کی چابی لی اور نکل کھڑا ہوا۔یہ سرا سر والدین کی غفلت کا شاخسانہ ہے،جس کی وجہ سے چھ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور اْن کا بچہ ایک سنگین مقدمے کا شکارہوگیا-پاکستان دنیا کے اْن ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔۔ٹریفک قواعد کی جتنی خلاف ورزی پاکستان میں کی جاتی ہے شاید ہی کہیں اور ہوتی ہو۔دنیا کے مہذب ممالک میں ٹریفک کانسٹیبل کو دیکھ کر پابندی نہیں کی جاتی،بلکہ ٹریفک رولز کو سامنے رکھ کر سڑک کا استعمال کیا جاتا ہے-کسی نے کیا خوبصورت بات کی ہے کہ ملکوں کا رہن سہن دیکھنا ہو تو اْن کی ٹریفک دیکھ لیں۔اندازہ ہو جائے گا کتنا ڈسپلن ہے اور کتنی تہذیب موجود ہے۔ سڑکوں پر دندنانے سے کیوں روکیں گے؟ جب تک بچوں کے والدین کو مجرمانہ غفلت کا مرتکب قرار دے کر بچوں کے ساتھ شریک جرم نہیں سمجھا جائے گا لاقانونیت کے مظاہرے ہوتے رہیں گے۔ (جمشیدعالم صدیقی)