کشمیرکی اصل صورتحال کوجاننے کے لئے کشمیرکے مقامی اخبارات میں شائع رشحات کو پڑھ کربہت حدتک کشمیرکی اندرکی کہانی کادقیق و عمیق پتاچل جاتاتھااوراس ضیق وانقباض سے سیر حاصل آگہی بھی مل جاتی تھی جوبھارتی فوجی جبرکے باعث یہاں پایاجاتاہے۔اپنے کندھوں پر اپنے پیاروں کے جنازے اٹھانااورانہیں مزارات شہداء میں دفنادینے سے ان کے قلق واضطراب کو کچھ مدوا ہوتا تھا،جنازوں میں شریک لاکھوں کے اجتماع کو مقامی پریس کور کرتا تھا اور عہدوفاکی داستانیں رقم ہوجایاکرتی تھیں۔لیکن اب اول یہ کہ انکے پیاروں کی لاشیں انکے سپرد نہیں کی جاتی ہیں اور دوئم یہ کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ کشمیرکے مقامی پریس کے حوالے سے دہلی کی طرف سے تیور مذید کڑے ہوتے چلے جارہے ہیںاورہراس اخبار اور اسکے مالک کوکڑی سے کڑی سزادینے کے لئے نئی میڈیاپالسی وضع کی جا رہی ہے جوکشمیری شہدائے سے متعلق سٹوری لکھیں یابھارتی فوج کے ہاتھوںارض کشمیر پر ہو رہی بربریت ، مار دھاڑ، لوٹ مار، جلائو گھیرائو جیسی خبریں شائع کرے تودوسری طرف مقام شکرہے کہ عالمی اخبار کشمیرسے متعلق حقائق کو طشت ازبام کرکے دنیا کو کشمیرکی اصل صورتحال باخبر کررہے ہیں اور بھارتی چہرے سے سیکولرازم کانقاب اتارپھینک رہے ہیں۔ قطرکے ممتاز میڈیا چینل( الجزیرہ) نے 18 مارچ 2020 کوکشمیرکی صورتحال پر ایک سٹوری کورکی جس میںبتایاگیاکہ کس طرح دہلی نے کشمیرمیں صحافیوں اور صحافتی اداروں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے ۔رپورٹ میں بتایاگیاکہ کس طرح 5اگست 2020ء سے لیکرمارچ 2020ء تک پچھلے 8ماہ سے سرزمین کشمیر پر بھارتی افواج ، اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں کی نگرانی میں کشمیرمیں کام کرنے والے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیابھارتی جبر تلے بری طرح سانسیں لے رہا ہے ۔ کشمیری اخبار نویسوں کے خلاف جبر ، استحصال اور توہین کے جملہ ہتھکنڈے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک ہندو محقق روی آر پر شادنے جاری کی ہے۔ روی پرشاد صاحب ویانا ’’آسٹریا‘‘ میں ہیڈ آفس رکھنے والے تحقیقی ادارے( IPI) کے ڈائریکٹر ہیں ۔دل دہلا دینے والی اس تفصیلی رپورٹ میں کشمیر کے کئی صحافیوں کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں جنھیں گذشتہ آٹھ مہینوں کے دوران کئی بھارتی اداروں کی طرف سے متنوع مظالم سہنا پڑے ہیں۔ حفظِ ماتقدم کے تحت ، رپورٹ میںکئی کشمیری صحافیوں کے نام بدل دیے گئے ہیں لیکن کئی صحافیوں نے جرات سے اپنے اصل نام شائع کرنے کے اجازت دی ہے ۔ جس روز (IPI) کی مذکورہ تہلکہ خیز رپورٹ نے دنیا کے سامنے بھارت کا گھنائونا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب کیا، اسی روز نیویارک میں بروئے کار بین الاقوامی سطح پر صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرنیوالے عالمی ادارے (CPJ)کی سینئر ایشیا ریسرچر نے بھی یہ انکشاف کیا کہ عالمی لعن طعن اور مذمتوں کے باوجود کشمیر میں بھارت مختلف النوع جبریہ اقدامات سے باز نہیں آرہا ۔ جمعہ 12جون 2020امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے جموںوکشمیرسے تعلق رکھنے والے ناول نگار ملک سجاد کی تیار کردہ 24گرافکس کا ایک مجموعہ شائع کیا ہے جن میں ارض کشمیر میں طویل ترین بھارتی محاصرے کے دوران لوگوں کے دکھ درد کی منظر کشی کی گئی ہے اور وہ اپنی گرافکس میں بھارتی فوج کے ہاتھوںاسلامیان کشمیر پر ہو رہے وحشت انگیزمظالم اوراس کے نتیجے میں انکی ابتر ہوتی ہوئی حالت زار کی عکاسی کرتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ ان خاکوں کے ذریعے جہاں وادی کشمیر کے عوام پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم بے نقاب ہوئے وہیں سرزمین کشمیر پر طویل ترین لاک ڈائون اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی المیے اجاگرہوئے ہیں۔ تین عشروں سے بھارتی فوج کے ہاتھوں لگا تار جاری جبر، بربریت، ماردھاڑ، لوٹ مار، جلائو گھیرائو، لوٹ ماربندشیںاور کرفیو سے وادی کشمیر میں عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ بلاشبہ امریکی اخبارکا تصویری خاکہ سے عالمی رائے عامہ کو کشمیری مسلمان مشکل ترین روزوشب کیسے گزارنے پرمجبورہیںسمجھنے میں مددملے گی۔ ناول نگار ملک سجاد کی تیار کردہ گرافکس کا یہ مجموعہ وادی کشمیر میں طویل ترین بھارتی محاصرے کے دوران لوگوں کے دکھ درد کی منظر کشی کررہا ہے اور وہ اپنی گرافکس میں کشمیریوں کی ابتر ہوتی ہوئی حالت زار کی عکاسی کرتے ہیں۔یاد رہے کہ وادی کشمیر میں گزشتہ دس ماہ سے زائد عرصے سے بھارتی محاصرہ اور نظام زندگی کو مفلوج کرنے دینے والا لاک ڈائون جاری ہے جبکہ مہلک وبا کروانا کی آڑ میں24مارچ 2020ء سے یہ محاصرہ مزیدسخت ہو چکاہے۔ جموں وکشمیر میں قبرستان کی مانند سناٹا ہے،لیکن اس کاہرگزیہ مطلب نہ لیاجائے کہ کشمیریوں نے بھارتی جابرانہ قبضے پرخاموشی اختیار کرلی ہے۔ یہاںدہائیوں سے کشمکش پائی جا رہی ہے اس کالازمی نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اس آتش فشاں میںاندرہی اندرسے جولاوا پک رہاہے وہ اچانک پھٹ پڑتاہے جس کاارتعاش دوردورتک محسوس کیاجاتاہے ۔ نیویارک ٹائمزکے ساتھ ساتھ واشنگٹن پوسٹ بھی کشمیرپراپنی رپورٹس شائع وجاری کرتا رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے سروے میں بھارت کے خلاف مظلوم کشمیریوں کے اصل جذبات کو طشت از بام کیا ہے۔ مارچ 2020 ء کے پہلے ہفتے میں شایع ہونیوالے کشمیرپر اس کے ایک سروے میںبتایاگیاکہ کشمیری نوجوانوں کی واضح اکثریت بھارت سے مکمل آزادی چاہتی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق: سروے میںواضح طور پر اجاگر ہوا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی افواج کے سنگین و ظالمانہ کریک ڈاون اور ذرائع مواصلات کی مستقل بندش کے باوجود بھی کشمیری نوجوانوں کی بڑی اکثریت پرامید ہے کہ کشمیری عوام کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی اور جلد یابدیر کشمیری عوام کا حقِ خودارادیت بہرصورت تسلیم کرلیا جائے گا۔