مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بالعموم دسمبر کے وسط سے برفباری شروع ہوجاتی ہے جو مارچ کے مہینے تک رہتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس بارمقبوضہ کشمیرمیں 3نومبرکوہی بھاری برفباری ہوگئی جس نے مقبوضہ کشمیرمیں ہرطرف تباہی مچادی ہے ۔موسم کی قہر سامانیوں کی وجہ سے لوگوں کو ایک بار پھر زبردست مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔اس غیر متوقع برفباری نے وادی کے لوگوں کو بڑی مصیبت میں ڈال دیا اورمقبوضہ کشمیرکاسارانظام زندگی پوری طرح درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ موسم سرما کی روایتی شروعات سے پہلے ہی غیر متوقع طور پر شدید برفباری نے وادی کے طول و عرض اور خطہ چناب و پیر پنچال کے کئی علاقوں میں تباہی مچاکر رکھ دی ہے۔ جہاں ایک طرف بجلی کے ترسیلی نظام پر جیسے برق گری وہیں میوہ باغات کو بے بیاں نقصان کا سامنا ہوا ہے۔ وادی کشمیر کے تمام اضلاع میںسیب باغات تباہی کے مناظر پیش کر رہے ہیں، خاص کر جنوبی کشمیر اور شمالی کشمیر کے ان علاقوںمیں جو پہاڑوں سے متصل ہیں اور جہاں بھاری مقدار میں برف گرکر درختوں کے اوپر جمع ہوگئی ہے۔ ابھی چونکہ سیبوں کی فصل اتار نے کاکام جاری تھا لہذا پھلوں کو پہنچے نقصان کا فوری اندازہ لگانا مشکل ہے، تاہم کروڑوںروپے مالیت کامیوہ تباہ ہوگیا کیونکہ وادی کے طول و عرض میں میوہ دار درخت یا تو جڑ سے اکھڑ گئے یا بیچ میں ہی ان کی ٹہنیاں ٹوٹ گئیں اس طرح ان پر جو میوہ تھا وہ ضائع ہوگیا۔ وادی کے ہر اس علاقے میں جہاں میوہ باغات ہیں ایسی ہی صورتحال دیکھی گئی۔ وادی بھر کے پھل کے کاشتکاروں نے موسم کی قہر سامانیوں پر شدید غم کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کی سال بھر کی کمائی ایک ہی جھٹکے میں ختم ہوگئی۔ چونکہ وادی کشمیر میں زعفران کی فصل اٹھانے کی شروعات ہوچکی تھی اور ابتدائی مرحلے کے پھول اٹھائے جا چکے تھے، جبکہ دوسرے مرحلہ کی چنائی چل رہی تھی، توبے وقت کی برفباری سے زعفران کی فصل بھی متاثرہوچکی ہے، اچانک برفباری وادی کشمیرمیںاقتصادی تباہی کا ایک اورپہلو بن کر سامنے آچکی ہے۔ بھارتی بربریت سے چونکہ وادی کشمیرکی معیشت پہلے ہی تباہی کا شکار ہو چکی ہے، لہٰذ ا یہ تازہ نقصان کشمیری عوام کی گزر بسر کیلئے شدید منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ چونکہ موسم سرما کی باضابطہ شروعات ہو نے جارہی ہے لہٰذا آئندہ ایام میں کیا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے، اس کے بارے میںابھی کچھ کہنا اگر چہ مشکل ہے، لیکن سرمائی طوالت عام لوگوں کی مشکلات کو یقینی طور پر طول دے سکتی ہے۔ کشمیر وادی میں اس وقت درختوں سے سیب اتارنے کاسیزن افق پرتھا اور درختوں پر پوری طرح سے پک گئے اور ان کو درختوں سے اتار نے کا کام شد ومد سے جاری تھا ،تاہم ناگہانی آفت نے باغ مالکان کو نا قابل تلافی نقصان سے دوچار کیا ۔ بھاری برفباری کے سبب سینکڑوں درخت جڑ سے اکھڑ گئے جبکہ درختوں کی ٹہنیاں بھی زمین بوس ہوگئیں اورسیب کے باغات کو شدید نقصان پہنچاہے ۔وادی کے اطراف واکناف سے اکتو بر کے آ خراور نومبر کے وسط سے سیب کے درختوں سے اتارے جاتے ہیں ۔سیبوں کی مختلف اقسام ڈلیشن ،مہاراجی درختوں پر ہی تھیں اور وہ اب اسکو اتارنے کا عمل شروع ہونے والا تھا ۔ اس کے علاوہ امریکن سیب کو پہلے ہی اتارا گیا تھا ،اس کی پیکنگ ہورہی تھی اور اسے بیرون منڈیوں تک پہنچا یا جاتا تھا ۔ اس غیرمتوقع برفباری سے محض ایک روز قبل مقبوضہ کشمیرکے کئی علاقوں میں تیزہوائیں چلنے سے خوف ودہشت کی لہردوڑگئی تھی جبکہ اس دوران بجلی کے ترسیلی نظام کونقصان پہنچ جانے کے نتیجے میں شہرسری نگرسمیت وادی کے کئی علاقوں میں بجلی سپلائی منقطع ہوچکی تھی ،اورسبھی متاثرہ علاقے ،بستیاں اورکالونیاں تاریکی میں ڈوب گئیں ۔جموں کے ضلع راجوری کے ایک دورافتادہ گائوں کنڈکریوٹ میں دوران شب آسمانی بجلی گرنے کے نتیجے میں بکروالوں کے 108 بھیڑ بکریاں جان سے گئیں۔ کشمیرکے تمام سیاحتی مقامات بشمول گلمرگ، پہلگام اورسونہ مرگ میںماحول خاصا خوفناک بن چکاتھا ۔ گزشتہ 48 گھنٹوں سے جاری برفباری کے دوران اہل کشمیرکی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوچکاہے۔ اگرچہ برف کے نزول سے ہی کشمیرکے قدرتی حسن کو چارچند لگ جاتے ہیں، برف کے ڈھکے درختوںسے جھک جانے سے ایسالگ رہاہے کہ شجرات الارض رب الکریم کے سامنے سجدہ ریزہوچکے ہیںجبکہ کشمیر کے تاج میں نگینہ قرار دی جانے والی دل جھیل بھی سردی کی شدت کے باعث کئی مقامات پر منجمد ہوچکی ہے۔ وادی کشمیر میں طویل خشک سالی کے بعد برفباری نے امیدوں کو ایک نئی جِلا بخش دی ہے، کیونکہ مسلسل خشک موسم کے بہ سبب وادی میں خشک سالی کا سلسلہ ٹوٹ جانے سے آلودہ ہوائیں بھی صاف ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے اور ظاہر بات ہے کہ صحت عامہ کے حوالے سے من حیث المجموع لوگوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی۔ لیکن قابض بھارتی فوج کی بربریت لگاتاتارجاری ہے جواہل وادی کے لئے بدستورسوہان روح بنی ہوئی ہے ۔ ہمالہ کے دامن میں ابلتے ہوئے چشموں، آبشاروں، لالہ زاروں ، سر سبز شاداب کھیتوں ، زعفراں زاروں کے ہوشربا اور پر کشش قدرتی مناظر سے بھر پور سرزمین جسے بقول علامہ اقبال اہل نظر نے ایران صغیر سے تعبیر کیا ہے اور جس کی سرحدیں ہندوستان، چین ،افغانستان کے ساتھ ملتی ہے قدیم عہد سے دنیا بھر میں مشہور ہے دنیا کا کوئی مقام اس کا ہمسر نہیں۔اگرکشمیر کو بر صغیر ہندو پاک کا سویزر لینڈ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا اسکی رنگارنگ وادیوں اور اسکی دل فضا ٹھنڈی ہوائوں میں سانس لینے سے مردہ رگوں میں جان آجاتی ہے اس کے صحت افزا مقامات کی سیر سے مریض تندرست ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے بہتر روئے زمین پر کوئی مقام ہی نہیں اس کے ارد گردپہرے دار پہاڑ سبز وادی میں ملبوس کھڑے ہیں ۔کشمیر ان کے بیچ مین گویا پتھر کی انگو ٹھی میں زمرد کا نگینہ جڑا ہوا ہے۔ یہ خطہ بلا شبہ دنیا کا حسین ترین خطہ ہے پہاڑوںمیں چھپے ایک کثیررنگ خود رو پھول کی طرح ۔ جس کی نوک پلک صرف موسم نے سنواری ہے ۔اس سے یورپ ،امریکہ ۔ وسطی ایشا کے پہاڑی علاقوں کی طرح کسی نے کھربوں روپے خرچ کرکے نہیں سجایا۔ بلاشبہ کشمیری کی خوبصورتی ،زیبائش اوردلکش مناظر برف کے نزول سے ہی منسلک ہے لیکن بے وقت برفباری زحمت بن کرنازل ہوئی اورکشمیریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔