واشنگٹن کے ڈیلس ائیرپورٹ کے "Interfaith Chapel"کی تصویر فیس بک پر شیئر ہو ئی، تو مختلف نوعیت کا رد عمل موصول ہوا ، بعض نے اس کو مثالی اور بعض نے اسے سیکولرقرار دیا۔ ڈیلس ائیرپورٹ، جو واشنگٹن کا مرکزی ہوئی اڈا ہے ، کی چکا چوند میں تقریباً30×20ًفٹ کے ایک ہال کے باہر "Airport Chapel"کا بورڈ آویزاں ہے ، جس کے ایک طرف باقاعدہ’’ مُصلّی ٔ نماز‘‘ آراستہ،اوربیک وقت دس کے قریب لوگوں کے باجماعت نماز پڑھنے کی گنجائش ہے ، اس کے ساتھ مسیحی عبادت گاہ ، جس میں تقریباً 20 کرسیاں اور سامنے ڈائس ، اس کے ساتھ بائیبل اور دیوار پر صلیب آراستہ ، اور اسی تسلسل میں ایک طرف یہودی عبادت گاہ کے آثار نمایاں ہیں ۔ چیپل کے مرکزی دروازے کے ساتھ ایک بورڈ آویزاں ہے، جس پرخصوصی سروسز کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے جمعۃ المبارک ،یہودیوں اور مسیحی بھائیوں کی عبادت ،ان کے ہفتہ وار خاص ایام اوقات کے ساتھ درج ہیں ۔ آکسفورڈ انگلش/اُردو ڈکشنری اور مقتدرہ قومی زبان کی انگریزی اُردو لغت میں "Chapel"کا معنی مَعبد، عبادت گاہ، چھوٹا گرجا ،عبادت یا نماز کے لیے نجی یا ضمنی جگہ کے طور پر درج ہیں ۔ ایئر پورٹ چیپل کے بروشر میں ،اس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ اس کے قیام کابنیادی مقصد دنیا کوامن، رواداری ،انسان دوستی اورمذہبی ہم آہنگی کا پیغام دینا ہے ۔واشنگٹن ائیر پورٹ اتھارٹی دنیا بھر کے مختلف خطّوں اورمذاہب سے وابستہ افراد/ مسافروں کو اس جگہ پر نماز اور عبادات کے لیے مدعو کرتے ہوئے ، اس معبد کو تپتے ہوئے صحرا میں بادِخوشگوار سے تعبیر کیا اور لوگوں کواس امر کی تلقین کی ہے کہ وہ اپنے مختلف مذہبی تنائو او ر اختلافات نظر اندازکر کے ذہنی آسودگی کی طرف راغب ہوں ۔ اس ایئر پورٹ چیپل پر ایک اور خوبصورت جملہ بھی درج ہے ، جو اپنے جمالیاتی حُسن کے اعتبار سے منفرد اورفضائی مسافروں کے لیے بڑا مسحور کن ہے،وہ ہے "Tranquility on the Fly" یعنی پرواز کے دوران۔۔۔ آسودگی۔واشنگٹن سے پاکستان کے لیے اتحاد یا قطر ایئر ویز کی (بذریعہ ابوظہبی یا دوحہ) پرواز بالعموم7،8بجے شب ہوتی ہے ،جس کے لیے تقریباً 4بجے شام ایئر پورٹ پرپہنچ کر ، سامان کی بکنگ اوربورڈنگ کارڈ کے حصول کے بعد محترم ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کی امامت وقیادت میں عصر کی نماز ادا کرنے اور پھر برادرم کوثر جاویداور خالد بھائی کے ساتھ ’’کافی شاپ ‘‘سے استفادہ ہمیشہ کا معمول ہے ،امیگریشن کے جانگسل مراحل سے گزرنے کے بعد’’ایئر پورٹ چیپل‘‘میرے سامنے ہوتا ہے، جو ایئر پورٹ کے گیٹ C:32کے قریب ہے ، جہاں مجھے ہمیشہ دو چار نمازی ضرور نظر آتے ہیں، ابن کثیر سمیت قرآن پاک کے چند نسخوں کی موجودگی۔۔۔ کلام اللہ کی حقانیت، صداقت اور آفاقیت کا ثبوت فراہم کررہی ہوتی ہے ، شاید دیگر مذاہب کی عبادات کے اوقات مختلف ہوں ،بایں وجہ ان عبادت گذاروں کی زیارت سے ہمیشہ ہی محروم رہا۔ اُمّتِ محمدیہ ، جن امتیازات سے سرفراز ہے ،ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اللہ نے ساری زمین کو ان کے لیے مسجد بنادیا ہے، لہٰذا یورپ اور امریکہ کی وسیع النظری اس اعتبار سے ان کے لیے فائدہ مند ہے کہ وہ بوقتِ نمازکسی بھی پارک، کیفے یا سروس ایریا میں ، قبلہ رُو ہونے کے لیے بیتاب ہوجاتے اور اس پرانہیں کسی ناگواری یا تعرض کا سامنابھی نہیں کرنا پڑتا، اورنہ ہی وہاں کی جدت پسندی اور روشن خیالی اس راستے میں کہیں حائل ہوتی ہے۔ بہت سے چرچ ایسے ہیں جو ذیلی یا ضمنی طور پر مسلمانوں کے زیر استعمال ہیں، جن میں جمعۃ المبارک سمیت مختلف اسلامی تقریبات پوری آزادی سے وقوع پذیر ہوتی ہیں ، بلکہ بہت سے اسلامک سنٹران چرچوں کو خرید کر تشکیل پا رہے ہیں۔ واشنگٹن سے متصل سٹیٹ بالٹی مور میں ترکش اسلامک سنٹر کئی ایکڑوں پر محیط ہے، جس میں عظیم الشان مسجد کے ساتھ آڈیٹوریم ، میوزیم سمیت دیگر شعبہ جات قائم ہیں۔گذشتہ سال ایک ’’عرب مسجد‘‘میں جانے کا بھی اتفاق ہوا ، جو اپنی وسعت، آسائش اور آبادکاری کے حوالے سے نمایاں اوراسی طرح ورجینیا میں حضرت داتا گنج بخش ؒ کے عقیدت مندوں کا مرکز بھی لائقِ تحسین ہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں مارٹن لوتھر وہ پہلا شخص تھا جس نے پوپ کے اختیارات کو چیلنج کیا اور ساتھ ہی عقلِ انسانی کو وحی کی تعبیر کا واحد ذریعہ قرار دیا۔ یہی وہ دور ہے جس کے بعد مغربی سوسائٹی میں مذہب کی گرفت بتدریج کمزور پڑنے لگی، اور یوں جب سے مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکال کر ، انسان کا ذاتی معاملہ بنا دیا گیا ہے، تب سے یہ معاشرے وحی الہٰی اور اُلوہی تعلیمات سے بیگانہ ہوگئے، ان کا اپنے چرچ کے ساتھ جو معمولی سا تعلق باقی ہے، وہ بھی چند رسومات کی حد تک ہے۔ تاہم اس کے باوجود رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسائیں یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں حضرت عیسی ؑ کی ولادتِ باسعادت کا یوم پورے تزک و احتشام اور مذہبی عقیدت و محبت سے مناتی ہیں، وطنِ عزیز پاکستان کے سرکاری اداروں میں کام کرنے والے مسیحی ملازمین کی کرسمس کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لیے ان کی ماہِ دسمبر کی تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی چند روز قبل ہی کر دی گئی ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب جناب سردار اعجاز نے سول سیکرٹریٹ کے دربار ہال میں’’کرسمس کیک‘‘ کاٹ کر مسیح بھائیوں کو کرسمس کی مبارکباد پیش کی، اس طرح بشپ آف لاہور کی دعوت پر بھی مسلم زعماء اور علماء اس یوم کی مناسبت سے ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں ،جو اس امر کا غماز ہیں کہ بین المذاہب عالمی اتحاد و یگانگت کا بنیادی تصور ’’جذبۂ اشتراک ومحبت‘‘ہی کا رہینِ منت ہے۔ دورِ جدید میں بین المذاہب یگانگت اور ہم آہنگی کے بین الاقوامی اصول و تصورات کا صاف اور واضح مفہوم بھی یہی ہے کہ انسان کے معاشرتی اور مذہبی طرزِ عمل کو تنگ نظری کی بجائے وسیع النظری اور محدودیت کی بجائے آفاقیت سے روشناس کرایا جائے۔ انسانی معاشروں کو چھوٹی چھوٹی وحدتوں میں تقسیم کرنے والے جذبات و احساسات کی علمی، فکری اور معاشرتی سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے ، تاکہ انسان کے دل و دماغ میں پوری دنیائے انسانیت اور ہمہ گیر اجتماعیت کے لیے ہمدردی اور بہی خواہی کے جذبات مستقل بنیادوں پر استوار ہو سکیں۔ وطنی ، قومی ، نسلی اور طبقاتی بندشوں اور پستیوں سے آزاد اور بلند ہو کر عام انسانی مستقبل کو ایک اکائی کی صورت میں دیکھنے کا جذبہ پروان چڑھ سکے ۔ عالمِ انسانیت کے مسائل کے ادراک اور مستقل حل کے لیے ذہنی اور عملی کوششوں کی طرف رغبت پیدا ہو، نیز یہ کہ عالمی اتحاد ویگانگت اور انسانی بستیوں کے سکون و اطمینان کے لیے ان مسائل اور اُلجھنوں کی بیخ کنی کی جائے ،جوحالتِ جنگ کی ہوں یا زمانہ اَمن کی۔ ان کے لیے ایسے مشترکات بہم پہنچائے جائیں، جن کو اپنانے سے اختلافِ عقیدہ ومذہب کے باوجود بین المذاہب عالمی اتحاد و یگانگت اور بین الاقوامی تعلقات زیادہ سے زیادہ فروغ پا سکیں، تاکہ ہر ملک ، نسل، مذہب اور وطن کا انسان دوسرے سے اپنائیت اور محبت کا رشتہ محسوس کرنے لگے۔