غالب نے کہا تھا: پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں لیکن مجھے دوسرے مصرعے میں تھوڑی سی تحریف کرنا پڑے گی۔ ڈرتا ہوں واپڈا سے کہ بجلی گزیدہ ہوں۔ آپ کو میں اپنی کیفیت نہیں بتا سکتا ایسے بندے کی کیفیت کیا ہو سکتی ہے جس کا بجلی کا بل 47ہزار روپے آ جائے۔ میرے معزز قارئین!آپ کو یاد ہو گا پچھلے ماہ میں نے لکھا تھا کہ واپڈا کی چالاکیاں دیکھ لیں کہ زیرو بل بھیج کر اوپر لکھا ہے۔No to be paidاور اگلے ماہ جب to be paidہو گا تو دن کو تارے نظر آ جائیں گے وہ دو ماہ کے اکٹھے یونٹ بنا کر ریٹ لگائیں گے۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ نہیں یقین تھا۔ پورے چار سال میں بھی کبھی 7000سے زیادہ بل نہیں آیا اور اس مرتبہ دو ماہ کا سنتالیس ہزار روپے کہ آپ بلبلاتے رہیں۔ محکمہ سے پوچھو تو کہتے ہیں کچھ نہیں ہو سکتا۔ بڑا سیدھا سا سوال ہے کہ آپ ہر ماہ بل کیوں نہیں بھیجتے۔ بل کا معاملہ بھی نہیں آپ یونٹ ریڈنگ ہی نہیں لیتے۔ نیٹ پر جائو تو وہاں بھی بل دستیاب نہیں بہانہ یہ کہ نیا بندہ آیا ہے ابھی اسے میٹر ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگے گا۔ متعلقہ شخص جو کہ مرغزارکالونی بیٹھا ہے‘وہ بھی ایسا کہ جیسے گھر سے لڑ کر آیا ہے بڑی رعونت سے کہنے لگا کہ بل تو آپ کو ادا کرنا ہی پڑے گا۔ وہ صرف جرمانہ معاف کر سکتا ہے۔ عرض کیا کہ جرمانہ تو due dateگزرنے کے بعد پڑتا ہے۔ یعنی اس نے وہ گناہ معاف کرنے ہیں جو ابھی کیے ہی نہیں۔ اللہ اللہ کیسے کیسے لوگ بٹھائے ہوئے ہیں۔واقعتاً آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔وہ صاحب ایک اور لات حاتم طائی کی قبر پر مارتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ آئوٹ آف دی وے جا کر بل کی قسطیں کر دیں گے۔ میں نے کہا قبلہ آپ ان دی وے ہی رہیں۔ آپ ہمیں قسطوں میں نہ ماریں۔ بندہ جائے تو جائے کہاں۔ آپ بل پر ٹیکسز پر نظر ماریں تو سر پکڑ لیں اس میں سیلز ٹیکس ہی سترہ ہزار تھا۔ میٹر کی صورت حال کچھ اس طرح کی ہے کہ عام آدمی یعنی میرے جیسا آدمی اس کی ریڈنگ لے ہی نہیں سکتا۔ کہیں پیکpeek hourکی ریڈنگ ہے اور کہیں دوسری اب جا کر پتہ چلا کہ شام 6سے لے کر 10بجے تک پیک آور ہیں اور یونٹ کا ریٹ 17روپے ہے۔ان چار گھنٹوں ہی میں بجلی زیادہ خرچ ہوتی ہے اس کے بعد تو لوگ سو جاتے ہیں۔ عام بجلی کا بل بھی 9روپے فی یونٹ ہے بات یہ ہے کہ اگر واپڈا سے کوئی غلطی ہو جائے یعنی ریڈنگ غلط ہو جائے تو بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ بل میں آپ ٹیکس کے نام پر جو کچھ بھی ڈال دیں بڑے سے بڑا ماہر بھی بل کو ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتا۔ یہ بات سب سے دلچسپ ہے کہ جو بل بن گیا وہ تو آپ کو ادا کرنا ہی پڑے گا گویا کہ آپ کے مقدر میں اسے لکھ دیا گیا ہے۔ بلوں کے بارے میں یہ محکمہ بہت حساس ہے کہ بجلی آئے نہ آئے بل پھر بھی آئے گا۔ وگرنہ میٹر کٹ گیا تو پھر ٹکریں مارنا ہونگی۔ ان کے ملازمین کے رویے اتنے برے ہیں کہ جیسے کوئی اپنی رعایا سے بات کرتا ہے۔ وہ بڑا مان سے کہیں گے دیکھیے آپ اوپر شکایت لے کر گئے تو پھر کچھ بھی نہیں ہو سکے گا پھر ہم جرمانہ بھی معاف نہیں کر سکیں گے۔ یہ وہی جرمانہ ہے جو ابھی ہوا ہی نہیں۔ میرے پیارے قارئین !آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں کوئی ذاتی دکھ بیان کر رہا ہوں۔ ایسی محبت واپڈا والے آپ سے بھی کرتے ہونگے۔ یہ جو بجلی چوری ہوتی ہے اس کا نقصان بھی یہ آپ سے پورا کرتے ہیں۔ میں تو آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ واپڈا کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے آپ بھی اپنا خیال رکھیں پیک آورز کو اپنے اوپر تقریباً حرام کر لیں۔ بچوں کو بتائیں کہ جس کمرے سے نکلیں بتی بند کرکے نکلیں۔ اپنے میٹر کی ریڈنگ لینا کسی سے سیکھ لیں۔ بل نہ آئے تو خود جا کر واپڈا دفتر پر چڑھائی کر دیں ان کی کوشش اپنی جگہ ہو گی کہ دو تین ماہ کا بل اکٹھا ہو جائے۔ وہ آپ کو بل جمع کرانے کا مارجن بھی کم سے کم دیں گے۔ کئی مرتبہ ایک دن پہلے بل ملتا ہے جیسے کہ میرے ساتھ ہوا۔ یہ تو ایک محکمہ کا حال ہے وگرنہ یہاں تو ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے۔ کیوں نہ آپ کو ایک شعر پڑھا دیا جائے‘ اس لیے کہ یہ ساری رونقیں نہ ہوں تو زندگی بھی بے کار ہے: یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں اس کے سینے سے اگر لہر اٹھا لی جائے مجھے اپنے دوست خالد محمود کی بات یاد آئی کہ انہیں یہ شعر 16سال بعد یاد آیا جب مشہور سونامی آیا۔ پھر اسی سونامی کو عمران خان نے اپنا نعرہ بنا لیا اس کا بالواسطہ تعلق بجلی سے بھی بنتا ہے کہ پانی میں بجلی بھی ہے اور جب یہ سونامی بنتا ہے تو تباہی بھی ہے۔ یہ تباہی اصل میں دوسروں کے لیے ہے۔روشنی کے دعوے دار واپڈا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے عوام کو تیرگی میں یعنی اندھیرے میں رکھا ہوا ہے اور اندھیر مچا رکھا ہے۔ اب مجھے بتائیے کہ ایک تنخواہ دار شخص کے لیے دو ماہ کا سنتالیس ہزار بل جمع کرانا کچھ آسان نہیں اگر آپ نہیں کراتے تو وہ آپ کو تیرگی میں ڈبو دیں گے۔ حکومت کا تو ابھی کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ خان صاحب کا انتظار ہے اور بس دوسری طرف سب لٹیرے اور شکست خوردہ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ جیل سے انٹرکشن آ رہی ہیں کہ اتنی سرمایہ کاری کرو کہ عمران خان وزیر اعظم نہ بن سکے۔ ساتھ ہی کچھ تلواریں اس پر لٹکا دی گئی ہیں۔ کیا کیا جائے: منیر اس ملک پہ آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ خدا کے لیے عمران خان کو کام کرنے دیں۔ اسے اتنا ہوش آنے دیں کہ اداروں کی طرف دھیان دے سکے۔ آپ تو اسے اڑنے سے پہلے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ فرسٹیڈ ہو کر کوئی قدم اٹھا لیں۔ چلیے آخر میں برادر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کا شکریہ کہ انہوں نے میرے حالیہ کالمز پر نہایت محبت بھرا فون کیا اور کہا کہ آپ نے یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے عمران خان کو بہت اچھا مشورہ دیا اور دوسرا اردو زبان کے حوالے سے یہ بات خود خان صاحب نے کی تھی میں نے تو یاد دھانی کروائی۔ نظام تعلیم یکساں ہو گا تو سب ایک ہی سپرٹ سے تعلیم حاصل کریں گے اور برابری کا ایک احساس قوم کو ایک جگہ کھڑا کر دے گا۔ اس پر کبھی مفصل کالم لکھوں گا۔ بہرحال اس کالم میں تو میں یہی بتانا چاہتا تھا کہ ہم واپڈا کے ستائے ہوئے ہیں۔ اللہ سب کو واپڈا والوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔