اب تو پی ٹی وی دادی اماں کی طرح میڈیا کے گھر میں سب سے الگ تھلگ بستا ہے۔ وہ پی ٹی وی جو اپنے دور کی بہت حسین اور بیحد پرکشش شخصیت تھا۔ اب تو ہمارے دلچسپیوں کے بہت سارے سامان پیدا ہوگئے ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہمارے دن اخبارات کے ساتھ گذرتے تھے اور ہماری شامیں پی ٹی وی کی پرکشش کمپنی میں قید ہوا کرتی تھیں۔ان دنوں پی ٹی وی پر چلنے والا ہر پروگرام اچھا لگتا تھا اور کسی پروگرام سے نظر اٹھانا بہت مشکل محسوس ہوتا تھا مگر پی ٹی وی کے ڈرامے اتنے مقبول تھے کہ بازار بند ہوجایا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب لاہور سے اشفاق احمد اور کراچی سے فاطمہ ثریا بجیا اور حسینہ معین کے ڈرامے بہت شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ اشفاق صاحب کے ڈراموں میں تو ایک انسان کے یونیورسل جذبات کی ترجمانی ہوا کرتی تھی مگر کراچی سے پیش ہونے والے ڈرامے شہری کلچر کے سطحی موضوعات کے ارد گرد گھوما کرتے تھے۔ ان ڈراموں میں کشش تو تھی ؛ وہ ڈرامے ہلکے پھلکے موضوعات کو اٹھا کر دلچسپی کا سامان تو مہیا کرتے تھے مگر ان ڈراموں میں وہ وسعت اور گہرائی نہیں تھی جو پاکستان کے تاریخ، ثقافت اور جغرافیہ میں موجود ہے۔ پی ٹی وی سے پیش ہونے والے قسط وار ڈراموں میں کچھ نئے نام ابھر کر سامنے آئے۔ ان ناموں میں پنجاب سے اصغر ندیم سید اور منو بھائی جب کہ کراچی سے عبدالقادر جونیجو اور نورالہدی شاہ کے نام ابھر کر سامنے آئے۔ نورالہدی شاہ بھی کچھ بعد میں آئیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی وی کے مایہ ناز ڈارمہ نویس عبدالقادر جونیجو تھے جن کے ڈراموں میں پورے پاکستان میں ایک طرح کی دھوم مچادی تھی۔کیوں کہ ان کے ڈراموں میں وہ خوشبو تھی جو خوشبو ریت پر برسات کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ وہ سوندھی خوشبو جو مہکتی ہوئی اس مٹی میں ہوتی ہے جس مٹی میں چند روز قبل عبدالقادر جونیجو ہمیشہ کے لیے سما گئے۔ مجھے ان کی وفات پر دکھ ہوا مگر اس کے جانے کی خبر کو ہماری قومی میڈیا میں جس طرح نظرانداز کیا گیا اس سے مجھے افسوس ہوا۔ہم آخر اس بات کو کب سمجھیں گے کہ ایک تخلیقی ادیب کو کسی مخصوص قومیت یا زبان تک محدود کردینا اس انسان نہیں بلکہ ادب کے ساتھ زیادتی ہے۔ ادب ایک ایسا میڈیم ہے جو ہمیں آپس میں جوڑتا ہے۔ جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے۔ جو ہمارے درمیاں نفرت اور تعصب کی دیواروں کو گراتا ہے۔ جو ہم سب کے بند ہونٹوں پر ایک گیت بن کر گونجتا ہے۔جس طرح حسن اور محبت کا مخصوص ملک نہیں ہوتا۔ اسی طرح ادب اور احساس کو کسی زباں اور کسی قومیت میں قید کرنا اعلی شعور کی توہین ہے۔ ہم کو یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئیے کہ جہاں ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے نفرت اور تعصب کے خلاف بھرپور جنگ لڑی ہے وہاں ہمارے چند اہل قلم ایسے بھی رہے ہیں جنوں نے قلم سے قوم کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کی کوشش کی ہے۔ انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے خلاف جس ادب نے اپنا بھرپور کردارا ادا کیا اس میں شیخ ایاز کا نام بہت معتبر ہے۔ وہ شیخ ایاز جو نہ صرف سندھی بلکہ اردو زباں کے بھی بہت اعلی شاعر تھے۔ انہوں نے نہ صرف شاہ لطیف کی شاعری کا اردو ترجمہ کیا بلکہ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ اردو میں تھا۔ اس مجموعے کا نام تھا ’’بوئے گل نالۂ دل‘‘ اور انہوں نے آخر میں بھی اردو زبان میں زبردست شاعری کی۔ ان کے اردو کلام کا دوسرا مجموعہ ’’نیلو کنٹھ اور نیم کی پتی‘‘ ہے۔ جس میں ایک نظم یہ بھی ہے کہ: ’’کل رات بھٹائی گلیوں میں/خوں میں لت پت دیکھا تھا/اک خنجر اس کے سینے میں پیوست ہوا/وہ آن گرا/جب میں نے اپنی جھولی میں/اس کے زخم کو سہلایا/تو کیا دیکھا؟/وہ خسرو تھا۔/تاریخ کے خونی سفاکو/تم کب تک خون بہاؤ گے/اور کب تک یہ جتلاؤ گے/یہ اِس کی زباں/وہ اس کی زباں /ہے ایک لوری /دونوں کی ماں‘‘ شیخ ایاز کے قربت میں رہنے والے اور ان سے ادبی پاٹھ پڑھنے والے عبدالقادر جونیجو نے بھی ادب کے بارے میں کبھی لسانیاتی سوچ کا اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے نہ صرف اردو میں ڈرامے لکھے اور سندھ کے تنگ نظر قوم پرست حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنے بلکہ انہوں نے اپنی سندھی تحریروں میں بھی عالمی ادب کے تراجم کیے اور سندھی پڑھنے والوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ادب علاقائی نہیں بلکہ عالمی ہوتا ہے۔ مگر عبدالقادر جونیجو اس عالمی ادب کے قائل تھے جس عالمی ادب کی جڑ اپنی دھرتی کی گہرائی میں موجود ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے جو پہلا ڈرامہ لکھ پر ملکی سطح پر شہرت حاصل کی وہ ڈرامہ ’’دیواریں ‘‘ تھا۔ اصل میں ’’دیواریں‘‘ ان کے سندھی ڈرامے ’’رانی کی کہانی‘‘ کا اردو ترجمہ تھا۔ وہ ترجمہ انہوں نے خود کیا۔ وہ ترجمہ جوں کا توں نہیں تھا۔ وہ ترجمہ تخلیقی تھا۔ اس میںانہوں نے بہت سارے اضافے کیے۔ اس ڈرامے میں دیہات میں رہنے والی عورتوں کی زندگیوں پر ہونے والے ظلم اور جاگیرداری نظام میں ان کی بے بسی کو بھرپور انداز سے پیش کیا گیا۔اس کے بعد عبدالقادر جونیجو نے بہت سارے بہترین ڈرامے تحریر کیے۔ کون بھلا سکتا ہے اس ڈارمہ ’’کارواں‘‘ ۔ اس ڈرامے میں تو صحرا صدائیں کرتا سنا جا سکتا ہے۔ان پر بیجا تنقید بھی ہوئی۔ ان کے ڈراموں پر یہ تہمت بھی لگی کہ وہ دیہاتی پس منظر کو پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تنقید نہیں بلکہ تعریف کے حوالے سے پیش کی جانے والی رائے ہونی چاہئیے تھی۔ عبدالقادر جونیجو نے جو ’’سیڑھیاں‘‘ کے نام سے ڈرامہ لکھا اس کا پس منظر شہری زندگی تھی۔ اس نے اس ڈرامے میں دکھایا تھا کہ کس طرح لوگ ایک دوسرے کو سیڑھیاں بنا کر استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب عالمی موضوعات تھے اور اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف موضوع سب کچھ نہیں ہوتا۔ موضوع کو کس انداز سے پیس کیا جائے؟ ادب کا اصل کارنامہ تو یہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالقادر جونیجو نے وہ اسلوب اپنایا جس نے بہت توجہ حاصل کی۔ عبد القادر جونیجو کو پاکستان کے لوگ صرف ٹی وی ڈراموں کی وجہ سے جانتے ہیں۔ حالانکہ وہ سندھی زباں کے بہت بڑے افسانہ نگار تھے۔ انہوں نے سندھی زباں میں نہ صرف تخلیقی کام کیا بلکہ انہوں نے سندھی زباں میں عالمی ادب کی تحریروں کا اس طرح ترجمہ کیا کہ ان کو پڑھتے ہوئے یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ تراجم ہیں۔ انہوں نے نہ صرف تخلیقی کام کیا بلکہ انہوں نے مستقل طور پر سندھی میڈیا میں کالم نگار کی حیثیت سے اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ اخباری کالموں میں ان کا اپنا الگ تھلگ انداز تھا۔ انہوں نے ہمیشہ لوک روایات اور جدید علم کے سنگم کو اپنے تحریروں میں سجایا۔ ان کے جانے سے پاکستان کے تخلیقی ادب کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ مگر ان کے جانے کی خبر قومی میڈیا میں اس طرح پیش نہ ہو پائی جس طرح پیش ہونی چاہئیے تھی۔ ممکن ہے کہ اس کا سبب یہ ہو کہ وہ ہم سے وبا کے دنوں میں بچھڑ گئے۔ عبدالقادر جونیجو جن عالمی ادیبوں کو پسند کرتے تھے ان میں ایک گارشیا مارکیز بھی تھا۔ ان کا ناول ’’وبا کے دنوں میں محبت‘‘ انہیں بہت زیادہ پسند تھا۔ کیا ان کو معلوم تھا کہ وہ وہ ہم سب سے ’’وبا کے دنوں میں ‘‘ بچھڑ جائیں گے؟