دو نہیں، یہ ایک ہی واقعہ ہے۔ پاکستان کے دل لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکلا کا حملہ ہو یا اسلامی یونیورسٹی کے طالبعلم طفیل الرحمٰن ہاشمی پر حملہ! دو نہیں ، یہ ایک ہی واقعہ ہے،ایک پھیلا ہوا واقعہ۔ اس کے مظہر بدل سکتے ہیں ، وجہ مگر نہیں۔ یہ بے اصول طاقت کے ظہور کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ ہر روز ہوتاہے اور پاکستان جیسے ملکوں میں تو ہر جگہ ۔ یہ واقعہ گلی کی نکڑ پر بھی ہوتا ہے اور طاقت کے ایوانوں میں بھی ۔ صدیوں سے یہ واقعہ جاری ہے اور صدیوں تک جاری رہے گا۔اگرچہ اس بار یہ واقعہ وکلا کے جبر کے ذریعے آشکار ہوا۔ چنانچہ آپ کو یہ حق ہے کہ آپ وکیلوں کو برا کہہ لیں۔یہ مگر آپ نہیں ہوں گے ،جو وکیلوں کو برا کہیں گے، کبھی کوئی کسی کو برا نہیں کہہ سکتا، یا کہہ لیجئے کہ کبھی کوئی کسی کو پورے سماج کے لیے برا نہیں بنا سکتا، جب تک کہ وہ خود ایسا نہ چاہے۔کیا کوئی خود بھی کبھی یہ چاہے گا کہ اسے برا کہاجائے؟ جی ہاں !جب آدمی بہت طاقتور ہو جائے ، یا بہت طاقت ور ہونے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے۔جب آدمی اپنی طاقت کو اخلاقیات کابدل سمجھ لے ۔ جب آدمی اپنی طاقت کو اصولوں کا علاج سمجھ لے اور جب آدمی اپنی طاقت پر انحصار کر کے انسانی رویوں کو رد کر گزرے۔جب انسانی نفسیات تکبر کا آسمان ہو جائیں، یعنی یوں کہ ؎ سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا مستند ہے میرا فرمایا ہوا تو ٹھیک یہی وقت آدمی کے زوال کا وقت ہوتاہے۔ انسان کی اصل طاقت اخلاقی ہے ، طاقت کی اصل اساس بھی اخلاقی ہے۔ ہر وہ طاقت ، ہر وہ عزت اور ہر وہ شہرت جو اخلاقیات پر ایستادہ نہیں ، وہ ڈھے جائے گی اور ڈھل جائے گی۔لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ وہ کسی وردی ، کسی رنگ ، کسی نسل ، کسی خطے یا کسی منصب کوطاقت یا عزت کا باعث سمجھ لیتے ہیں۔پھر ایک دن وہ اسی وردی ، اسی رنگ ، اسی نسل ، اسی خطے اور اسی منصب کوپستی میں پامال پڑا دیکھ لیتے ہیں۔ تب ان پر کھلتا ہے کہ نہیں طاقت ان میں نہ تھی ،طاقت ان اصولوں میں تھی ، جن پر یہ چیزیں استوار تھیں۔ازل سے یہی ہوتا آیا، ابد تک یہی ہوتا رہے گا۔آدمی نہیں اصول اہم ہوتے ہیں۔یہ قدرت اپنے اصول کبھی کسی کے لیے نہیں بدلتی ۔موت مثلا اگر خدا کا ایک اصول ہے تو یہ ممکن نہیں کسی شخص کی نیکی ، طاقت یا برائی اسے اس قانون سے ممتاز اور منہا کر دے۔ تکبر کا انجام مثلا رسوائی ہے تو کبھی کوئی اس سے نہ بچے گا۔ قارون ایک دن یوں نکلا کہ اس کے رعب و ہیبت نے دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا ڈالیں۔ اگلے ہی دن مگر وہ اس ساری ہیبت و ددولت کے ساتھ زمیں میں دھنسا پڑا تھا، یہ سب اس کے کسی کام نہ آسکا تھا۔فرعون خود کو خدائے برتر و عظیم کہلاتا تھا ، پھرایک دن نیل سے اس کا لاشہ نکالا گیا تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشاں ہو جائے۔انجام میں دیر ہو سکتی ، اندھیر مگر کبھی نہیں۔کالا کوٹ ہو کہ سفید کوٹ ، دونوں عزت کی علامت ہیں۔ہر پیشہ اہم ہے اور کوئی پیشہ برا نہیں۔ کالا کوٹ مگر جب قانون اور سفید کوٹ انسانیت کو روند ڈالے گا، خود کو عزت دینے والے اصولوں سے نکل جائے گا تو یہ گالی بن جائے گا۔یہ ملک ایک کالے کوٹ والے نے بنایا تھا، ایک وکیل نے۔ اس ملک کا خواب بھی ایک کالے کوٹ والے نے دیکھا ، علامہ اقبال نے۔اس ملک سے زیادہ کالے کوٹ کی عزت کس ملک میں ہو سکتی تھی؟ عزت کا انحصار مگر کوٹ پر نہیں کوٹ پہننے والے پر ہے۔ چنانچہ پچھلے ایک ہفتے سے آپ کالے کوٹ کی رسوائی دیکھ لیجیے۔ہر شخص یہ رسوائی دیکھ سکتا ہے ،سوائے کالے کوٹ والوں کے! یہاں احساس ہوتا ہے کہ طاقت اندھی بھی ہوتی اور بہری بھی ، طاقت صرف کہنا جانتی ہے، دیکھنا یا سننا نہیں۔ حالانکہ باقی رہنے کے لیے کہنا ہی کافی نہیں ہوتا ، دیکھنا اور سننا بھی لازم ہوتا ہے۔ وکلا نے جو کیا ، وہ بہت برا تھا، مگر اتنا برا نہیں ، جتنا برا انھوں نے اسے بعد میں بنا دیا۔ہر شخص سے غلطی ہوتی ہے، چھوٹی یا بڑی۔ یہ مگر خطا کار کا بعد کا رویہ ہوتا ہے جو غلطی کرنے والے کو شیطان بنا دیتا ہے یا ۔ ٹھیک ہے وکلا کو قانون کی بے بسی کا قریبی مشاہدہ تھا،قانون ان کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی تھا۔وہ قانون سے ہر روز کھیلتے تھے اور قانون سے ان کا یقین اور’جھاکا‘ اتر چکا تھا۔ چنانچہ انھوں نے وہ کیا جو کبھی کوئی ہوش مند شخص نہیں کر سکتا، وہ مگر وکیل تھے۔ انھوں نے قانوں کو ہاتھ میں لینے کے نعرے لگائے ، جتھہ جوڑا، اپنی طاقت کا جام پیا اور ہسپتال پر چڑھ دوڑے۔جیسے کبھی کوئی دشمن بھی دشمن پر نہیں چڑھ دوڑتا ، ایسے! ہسپتال کا گیٹ توڑا،ڈاکٹروں پر حملہ کیا، دل کے مریضوں پر حملہ کیا ، ان کے لواحقین پر حملہ کیا ،مریضوں کو لگے آلات توڑ ڈالے، سرکاری املاک پر حملہ کیا،شفایابی کے آلات اور در ودیوار توڑ ڈالے، پولیس کی گاڑی جلا ڈالی ، مرد ہی نہیں خواتین صحافیوں پر حملے کیا، اپنا آپ بچا کے بھاگتی خواتین صحافیوں کا تعاقب کرتے رہے۔ وزرا کو زدو کوب کیا۔قصہ مختصر پڑھے لکھے اور قانونی تشدد کااک نیا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔ یہ اک جنون تھا،اشتعال کے بعد مگر ایک لمحہ آدمی پر ادراک کا بھی طلوع ہوتاہے ۔جب آدمی پالینے اور کھو دینے کا بیٹھ کے حساب جوڑتا ہے۔ افسوس یہ لمحہ وکلا پر طلوع نہ ہو سکا۔ انھیں احساس ہی نہ ہو سکا کہ قانون کے ہاں ہی نہیں وہ سماج کے ہاںبھی سفاک مجرم قرار پا چکے ہیں۔ انسانوں کے نہیں ، انسانیت کے مجرم۔ عین اس لمحے جب ہاتھ جوڑ دینے، سر جھکالینے، نظریں نیچی کرکے لہجہ بھگو لینے کا وقت تھا، وکیل اس لمحے طاقت کی منطق سمجھانے اور سماج کو دھمکانے نکل پڑے تھے، طاقت بھی آدمی کو کتنا گمراہ کرتی ہے، انسان کو اس کی اوقات بھلا دیتی ہے۔ ؎ تم بہت جاذب و جمیل سہی زندگی جاذب و جمیل نہیں نہ کرو بحث ہار جاؤ گی حسن اتنی بڑی دلیل نہیں قانون کو حقیر جاننے والوں کو ادراک ہی نہیں کہ قانون نہیں، اب قانونِ قدرت کی وہ زد پر ہیں۔قانونِ قدرت کے مقابل بھی کوئی ٹھہر سکا؟ اس آدمی سے زیادہ برا کون جو پورے پیشے کو برباد کر ڈالے۔ وکیل اسی کی ٹھان چکے، ساکھ ہی اگر اصل اثاثہ ہوتا ہے،تووکیل یہ اثاثہ کھو چکے ۔ افسوس مگر یہ کہ اندھی اور بہری طاقت انھیں نہ دیکھنے دے رہی ہے ،نہ سننے اور نہ سمجھنے۔چنانچہ ہر گزرتے لمحے مہلت کا موقع ریت کی طرح ان کی مٹھیوں سے پھسلتا جا رہا ہے۔اگر مکمل بربادی ان کے حق میں لکھی نہیں جا چکی تو کسی بھی لمحے انھیں احتجاج سے اٹھ کر قوم سے معافی کے لیے ہاتھ جوڑ دینے ہوں گے۔اس لیے کہ سب کچھ دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے ، مگر کھوئی ہوئی عزت نہیں۔بہرحال یہ بے مہار طاقت کی نفسیات کا واقعہ ہے۔ طاقت کسی وردی میں ہو، کسی کوٹ میں ہو ، کسی جماعت یا جتھے میں ہو، کسی یونیورسٹی یا ایوان میں ہو،جب وہ اصولوں سے انحراف کرے تو یہی گل کھلاتی ہے، ایسی ہی کہانیاں تخلیق کرتی ہے۔وقت بیتے گا اور وحشت کا دریا جب اترے گا تو تب وکیل کبھی جان لیں گے ، وہ یہ جان لیں گے کہ ان کے اس اقدام نے انھیں اور قوم کو کیا دیا؟ پیشے کو بدنامی ، لغت کو وکلا گردی کا لفظ ، لاہور کو رینجر، سماج کو لاقانونیت کا سبق اور سرکار کو کئی کروڑ کا نقصان۔