یورپ اور چین میں امریکہ سے بالابالاقربت بڑھ رہی ہے۔ پہلے یورپ اور امریکہ قریب ترین اتحادی تھے۔ یک جان دو قالب تھے۔ اب ستائیس یورپی ممالک کی یونین امریکہ کو اعتماد میں لیے بغیر چین سے معاشی اور تجارتی تعلقات کوتوسیع دے رہی ہے۔گزشتہ تیس دسمبر کو یورپی یونین اور چین نے ایک تاریخ ساز ’جامع سرمایہ کاری‘ کے معاہدہ پر دستخط کیے۔ چین نے یورپی ممالک کے لیے اپنے ملک میں براہ راست سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اب فریقین کو ایک دوسرے کی مارکیٹ تک زیادہ رسائی حاصل ہوجائے گی۔ اس معاہدہ کے دُور رس معاشی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ یورپی یونین نے چین سے جو معاہدہ کیا ہے اس کے تحت یورپی کمپنیاں چین کے مالی شعبہ یعنی انشورنس‘ بینکنگ ‘ اثاثوں کی مینجمینٹ وغیرہ میں سرمایہ کاری کرسکیں گی۔وہ برقی کاریں بنانے ‘ ٹیلی کمیونی کیشن ‘ ٹرانسپورٹ اور علاج معالجہ‘ فارماسیوٹیکل کی صنعت اور شعبوںمیںبھی سرمایہ کاری کرسکیں گی۔یہ تمام شعبے چین میں تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔ معاہدہ کے مطابق یورپی کمپنیاں اپنی طرح کی چینی کمپنیوں کے ساتھ انضمام کرسکیں گی ‘ انہیں خرید سکیں گی‘ انکے ساتھ مشترکہ منصوبے بھی شروع کرسکیں گی۔یورپ کی کاریں بنانے والی کئی کمپنیاں جیسے بی ایم ڈبلیو‘ واکس ویگن وغیرہ پہلے ہی چین میں مشترکہ منصوبے شروع کرچکی ہیں۔ اس معاہدہ کے رُو سے چین میں کام کرنیوالی چینی اور یورپی کمپنیوں کوایک جیسا ماحول اور شرائط میسر ہونگی۔ یورپ میں ایک بڑے طبقہ کو چین کے بارے میں کئی تحفظات تھے۔ وہ بھی اس سمجھوتہ میںدُور کردیے گئے ہیں۔ مثلاً یورپی یونین کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ چین میں مزدوروں کے حالاتِ کار بہتر بنانے پر چینی حکومت پر زور دے سکے۔ یورپی ممالک چین میں حقوق دانش(انٹلکچوئل پراپرٹی) کے حقوق کی حفاظت کا معاملہ بھی اُٹھا سکیں گے کہ کسی اوریجنل ایجاد کی سستی نقل نہ بنائی جائے۔ یورپی یونین کی کمپنیاں اس بات پر بھی تصفیہ کیلئے رجوع کرسکیں گی کہ ان کی ہمسر چینی کمپنیوں کو ریاست امداد(سبسڈی) فراہم نہ کرے۔ سب سے اہم‘ چین یورپی کمپنیوں کو ٹیکنالوجی منتقل کرنے پر مجبور نہیں کر سکے گا۔ یورپی یونین اور چین میںدو سال سے سرمایہ کاری میں اشتراک اور تعاون پر بات چیت چل رہی تھی۔ جرمنی اور فرانس چین میں یورپی ممالک کی کاروباری کمپنیوں کی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے چین سے ایک جامع معاہدہ چاہتے تھے جس سے فریقین کو فائدہ ہو۔ جرمنی اور فرانس کی کوششوں سے دیگر یورپی ممالک بھی متفق ہوگئے ۔ ایک معاہدہ طے پا گیا جس کے نتیجہ میں یورپی کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے میں آسانیاں ہونگی اور مزید مواقع ملیں گے۔ چین کیلئے بھی یہ معاہدہ اتنا پُر کشش ہے کہ وہ بھی یورپ کیساتھ اپنا تعاون بڑھائے گا۔اس معاہدہ سے یورپ اور چین دونوںجگہوں پر لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع ملیں گے۔ چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور بعض ماہرین کی رائے میں امریکہ سے آگے بڑھ چکی ہے۔ یورپ کی نظریں چین کی ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل وسیع منڈی پر ہے جہاں اسکی کمپنیاں اپنا مال امریکہ کی نسبت زیادہ فروخت کرسکتی ہیں۔چین کے بازار کی وسعت اور سازگار کاروباری ماحول کو دیکھ کر یورپی کمپنیوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔ امریکہ کی آبادی تقریبا تینتیس کروڑ ہے یعنی چین سے لگ بھگ پانچ گنا کم۔ جرمنی جیسا زیادہ ترقی یافتہ صنعتی ملک اسوقت چین کو امریکہ سے زیادہ مال برآمد کررہا ہے۔ یورپی ممالک سمجھتے ہیں کہ چین سے تجارت‘ کاروبار ‘ ماحولیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے اور کورونا ایسی وباؤں سے نپٹنے کی خاطر مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تعاون کرنا ہر ایک کے مفاد میں ہے۔ اس سے دنیا میں پائیداراور دیرپا ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ یہی سوچ چین کی ہے۔ پریشانی صرف امریکہ اور اسکی حامی لابی کو لاحق ہے کہ نئی صورتحال میںیورپ زیادہ خودمختارہوگیا ہے۔اسکا امریکہ پر انحصار کم ہوتا جارہا ہے۔ اُس نے امریکہ کی مرضی پوچھے بغیر چین سے معاہدہ کرکے واضح کردیا ہے کہ تجارتی اور کاروباری تعلقات قائم کرنے میں امریکہ کو یورپ پر ویٹو کا حق حاصل نہیں ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں امریکہ نے چین سے تجارتی جنگ شروع کی اور دنیا کے کئی عالمی معاہدوں سے دستبرداری اختیار کی۔ انہوںنے چین کی بڑی ٹیلی کام کمپنی ہوآوے پر پابندیاں عائد کردیں۔واشنگٹن عالمگیریت کے عمل کو روک کر معاشی تنہائی کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے لگا۔ تاہم یورپی ممالک کا رجحان تھا کہ عالمگیریت کو ایک قاعدہ قانون کے تحت آگے بڑھایا جائے۔ چین سے حالیہ معاہدہ اسی سوچ کا عکاس ہے۔ یورپ نے واضح کردیا ہے کہ سیاسی اختلافات کے باوجود وہ اپنی معیشت کو چین سے علیحدہ نہیں کرسکتا۔ یورپی یونین چین کو اپنا معاشی پارٹنر سمجھتی ہے۔ یور پ سے سرمایہ کاری کا معاہدہ چین کی موجودہ قیادت کی اس طویل مدتی پالیسی کا حصّہ ہے جسکے تحت وہ ایشیا اور یورپ کا ایک یوریشین اتحاد تشکیل دینا چاہتی ہے۔چین کا مطمع ِنظر ایشیا اور یورپ کو گہرے تجارتی اور معاشی رشتوں میں پرونا ہے۔ اسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم بھی تشکیل دی گئی ہے جسکا پاکستان بھی رکن ہے۔ وسط ایشیا سے کیسپئین سمندر اور ترکی کو جوڑنے پر کام ہورہا ہے۔ چین وسط ایشیا سے منسلک ہونے کیلئے ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدہ کو حتمی شکل دے رہا ہے۔ایران کے راستے وہ ترکی اور آگے یورپی یونین تک براستہ سڑک یا ریل منسلک ہوجائے گا۔ سمندری راستوں کی اہمیت کم ہوجائیگی جن پر امریکہ کا غلبہ ہے۔ پاکستان میں بھی متبادل تجارتی راستہ سی پیک کے تحت مکمل کیا جاچکا ہے جسے اب افغانستان اور ایران سے جوڑا جاسکتا ہے۔پورے ایشیا کو ایک معاشی رشتے میں منسلک کرنے کی خاطر گزشتہ سال نومبر میں چین نے ایک معاشی شراکت کا معاہدہ ایشیا اور بحرالکاہل کے 15 ممالک سے بھی کیا جن میں امریکہ کے قریبی تزویراتی اتحادی ممالک جیسے آسٹریلیا‘ جنوبی کوریا اور جاپان بھی شامل ہیں۔ چین اپنے معاشی اور تجارتی تعلقات کو تیزی سے وسعت دیتا چلا جارہا ہے۔دنیا میں عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے۔یُوں تویورپ اور چین نے ایک معاشی معاہدہ کیا ہے لیکن جب دو بڑے خطے گہرے معاشی مفادات میں جڑ جائیںتو اسکے عالمی سیاست پر بھی اثرات پڑتے ہیں۔امریکہ کو اب یورپ میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کیلئے بدلے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔