وزیر اعظم عمران خان مغرب کو سیاسی طور پہ آئیڈیلائز ضرور کرتے ہیں جہاں مغربی جمہوری نظام میں ایک عام آدمی کو انصاف، صحت تعلیم اور ترقی کے مساوی مواقع حاصل ہیں اور جہاں کرپشن کے محض الزامات پہ ہی سربراہان اور وزرا استعفیٰ دے ڈالتے ہیں لیکن معاشی ترقی کے حوالے سے مثال دینے کے لئے وہ مغرب یعنی یورپ یا امریکہ نہیں بلکہ مشرق یعنی چین ملائشیا جاپان اور سنگاپور جیسے ممالک کا سہارا لیتے ہیں جو خاصہ معنی خیز بلکہ اطمینان بخش اشارہ ہے۔مہاتیر محمد عمران خان کے معاشی آئیڈیل رہے ہیں جو 23 مارچ کے قومی دن کے موقع پہ منعقدہ تقریب کے مہمان خصوصی بھی تھے۔ وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے سے پہلے بھی وہ ملائیشیا کی معاشی ترقی اور مہاتیر محمد کی معاشی پالیسیوں کی مثال دیتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چین بھی ان کے لیے مثال رہاہے جس نے اربوں لوگوں کو غربت سے نکال کر انہیں بہتر معیارزندگی دیا ۔ اس دعوے کی صداقت کی بحث میں پڑے بغیر کہ چین میں ایک عام آدمی کا معیار زندگی کیا ہے اور کیا وہ واقعی اپنے ملک کی روز افزوں معاشی ترقی سے برسراقتدار سرمایہ دار اشرافیہ ہی کی طرح لطف اندوزہورہا ہے یہ بہرحال حقیقت ہے کہ آج کا چین دنیا کے نقشے پہ کسی معاشی اژدہے کی مانند پھیلا ہوا ہے۔چین میں چونکہ اژدہا خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے اس لئے چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو بھی کسی اژدہے سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ آپ اس عظیم الشان منصوبے کا نقشہ دیکھیں تو ایسا ہی معلوم ہوگا جیسے ایک مہیب اژدہا دنیا کو اپنے گھیرے میں لیے اطمینان سے دھوپ سینک رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے عمران خان نے پاکستان کی معاشی اور خارجہ پالیسیوں کا دیرینہ قبلہ جو مغرب رہا ہے، بدلنے کی ٹھان لی ہے۔ انہیں عالمی بساط پہ ہونے والی ان تبدیلیو ں کا ادراک ہے جن کے عروج پہ انہو ں نے پاکستان کی زمام کار سنبھالی ہے۔ مغرب معاشی اکھاڑ پچھاڑ سے گزر رہاہے۔ امریکہ اپنے ہی زور میں منہ کے بل گرنے کے قریب ہے۔ اس کا بجٹ خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ رواں مالی سال کے (2017-18) کے ابتدائی پانچ ماہ میںیہ انتالیس فیصد بڑھ گیا ہے جبکہ ماہ فروری میں یہ 234 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو پچھلے سات سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ٹیکس ریوینیو میں بیس فیصدکمی آئی ہے ۔اس صورتحال میں امریکہ نے صدر ٹرمپ کی سربراہی میں اپنے اخراجات کم کرنے شروع کردیئے ہیں جن کا لازمی نتیجہ دنیا کے ہر محاذ پہ پھنسائے گئے سینگ نکالنا ہے جس کے بغیر دفاعی اخراجات میں کمی ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار پینٹاگون کا آڈٹ ہوا ہے اگرچہ حسب توقع اس میں کوئی گھپلا نہیں نکلا لیکن وہ ہوا تو ہے۔امریکہ اس وقت اسی دور سے گزر رہا ہے جس سے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ گزرا تھا۔فرق بس یہ ہے کہ امریکہ نے یورپ کی طرح براہ راست نوآبادیات کی بجائے کمزور ممالک کو معاشی اورعسکری طور پہ زیر نگین رکھنے کی پالیسی کامیابی سے اپنائی اور جابجا اپنے عسکری اڈے بنالئے ۔ہرعروج کو زوال ہے۔ا س وقت امریکہ معاشی محاذوں پہ چین ایران روس اور ان کے طفیلی ممالک سے تجارتی جنگوں میں مصروف ہے جو اسے مسلسل جھکائیاں دے رہے ہیں۔یورپ بھی اس کی ایک نہیں سن رہاجہاں فرانس میں ایندھن کی قیمتوں اور مہنگائی میں اضافے کے باعث جلائو گھیرائو والے خالص پاکستان طرز کے ہنگامے عروج پہ ہیں اور اسمارٹ میخواں پہ صرف انتہائی امیرافراد کا صدر ہونے کی پھبتی کسی جارہی ہے۔اٹلی چین کے سلک روڈ منصوبے کا حصہ بننے کے لئے پر تول رہا ہے جس پہ جرمنی سخت برہم ہے اور اسے یورپی یونین کے مستقبل کے لئے خطرہ گردانتا ہے۔اٹلی کے آسیان ممالک کے ساتھ معاہدے موجود ہیں اور وہ غالبا پہلا یورپی ملک ہے جس نے آسیان کے ساتھ معاہدے کررکھے ہیں۔برطانیہ بریگزٹ کے تنے ہوئے رسے پہ چل رہا ہے جہاں بریگزٹ کے خلاف بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پہ نکل آئے ہیں ۔یہ احتجاج وہ اپنے جمہوری حق کی حفاظت کے نام پہ کررہے ہیں۔دوسری طرف ایشیا میں چین عالمی مارکیٹ پہ چھایا نظر آتا ہے۔ملائیشیا مہاتیر محمد کی قیادت میں ایک بار پھر معاشی دبائو سے نکل آیا ہے جس میں نجیب رزاق کی پالیسیوں نے اسے مبتلا کررکھا تھا۔حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف ملائیشیا کی اس ترقی سے متاثر نظر آتا ہے اور اس نے ملائیشیا سے کرپشن کے خلاف پالیسیوں کی تشکیل میں مدد کی درخواست کی ہے۔یہ وہی آئی ایم ایف ہے جسے 1997ء کے ایشیائی معاشی بحران کا ذمہ دار قرار دینے میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا اگرچہ اس میں ان ممالک کی بے سمت اور وقتی معاشی پالیسیوں کا بھی بڑا دخل تھا۔ بینکاک سے جنم لینے والے اس معاشی بحران میں مہاتیر محمد نے مطلق العنانی کا مثبت استعمال کیا اور آئی ایم ایف کی بجائے جاپان سے کم شرح سود پہ قرضے لئے۔ جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ معاشی ٹائیگر اپنے دوست ممالک کو معاشی طور پہ مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں جاپان کی مثال دیتے ہیں انہیں علم ہونا چاہئے کہ جاپان خود ایشیائی معاشی بحران سے متاثر ہوا تھا اور ملائشیا کو کم شرح سود پہ قرضے دینا اس کی مجبوری بن گئی تھی تاکہ جاپانی ین کو مستحکم کیا جاسکے۔مہاتیر محمد کی معاشی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان پہ کہیں کہیں یوٹرن کا گمان ہوتا ہے لیکن یہ محض اپنی قوم کی فکر میںغلطاں ایک لیڈر کے حالات کے مطابق اٹھائے گئے اقدامات تھے جن کا ایک واضح مقصد تھا اور وہ تھا ملائیشیا کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنا۔اس کے لئے انہوں نے جاپان کاصنعتی ترقی ماڈل بھی مستعار لیا اور اس سلسلے میں ہر قسم کی ریاستی مداخلت اختیار کی۔اس وقت مہاتیر محمدنے بھانپ لیا تھا کہ اگر واقعتا ایسی معاشی ترقی درکار ہے جو محض کاغذوں پہ نظر نہ آئے بلکہ اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں تو اس کے لئے مغربی استحصالی مالیاتی اداروں کی بجائے اپنے اردگرد دیکھنا ہوگا۔انہوں نے اس مقصد کے لئے جاپان اور جنوبی کوریا کا رخ کیا۔اسے مہاتیر محمد کی انظر شرق پالیسی سمجھا جاسکتا ہے ۔ یہ اسی کی وہ دہائی تھی جب تیل کی قیمتوں میں اضافے اور امریکی ریزرو بینک کے شرح سود میں اضافے کے باعث دنیا معاشی بحران سے گزر رہی تھی۔ملائیشیا بھی اس سے بری طرح متاثر ہوا ۔مہاتیر محمد نے حکومتی اخراجات کم کئے اور سرکاری تجارتی اداروں کا سخت آڈٹ کیا البتہ ملیشیا کے سرکاری صنعتی ادارہ ہائی کوم پہ ہاتھ ہلکا رکھا گیا کیونکہ وہی جاپان سے کم شرح سود پہ بھاری قرضے لے کر مینوفیکچرنگ کررہا تھا جس سے درامدات پہ انحصار کم ہورہا تھا ۔لیکن نجکاری،آزاد معیشت اورصنعتی اخراجات کی مد میںلئے جانے والے بھاری قرضوں نے ملائیشیا کو شدید معاشی بحران میں مبتلا کردیا البتہ اگلے دس سالوں میں ان غلطیوں کو درست کرنے کا کام بھی مہاتیر محمد نے ہی کیا اور انڈسٹریل کوآرڈینشن ایکٹ کو نظرثانی کے بعد نافذ کیا جس نے صنعتی انقلاب کی راہ ہموار کی۔(جاری ہے)